یہ تو بیان ہو چکا ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں تین قسم کا وسیلہ جائز ہے، اس کے علاوہ ہر قسم کا وسیلہ، مثلاً کسی مخلوق کی ذات یا فوت شدگان کا وسیلہ ناجائز و حرام ہے۔ بعض حضرات ناجائز وسیلے پر مبنی اپنے خود ساختہ عقائد کو ثابت کرنے کے لیے من گھڑت، جعلی، بناوٹی اور ضعیف روایات پیش کرتے ہیں۔ آئیے ان روایات کا اصول محدثین کی روشنی میں تفصیلی تجزیہ کرتے ہیں :
دلیل نمبر ۱:
عن مالك الدار، قال : وكان خازن عمر على الطعام، قال : أصاب الناس قحط في زمن عمر، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله، استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا، فأتى الرجل في المنام فقيل له : ائت عمر فأقرئه السلام، وأخبره أنكم مستقيمون وقل له : عليك الكيس، عليك الكيس، فأتى عمر فأخبره فبكى عمر ثم قال : يا رب ! لا آلو إلا ما عجزت عنه.
”مالک الدار جو کہ غلے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے خزانچی مقرر تھے، ان سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے۔ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر حاضر ہوئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول ! آپ (اللہ تعالیٰ سے) اپنی امت کے لیے بارش طلب فرمائیں، کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث ) تباہ ہو گئی ہے۔ پھر خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جا کر ميرا اسلام کہو اور انہیں بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی ) کہہ دو کہ عقلمندی سے کام لیں۔ وہ صحابی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا: اے اللہ ! میں کوتاہی نہیں کرتا، مگر یہ کہ عاجز آ جاؤں۔“
(مصنف ابن أبي شيبه:356/6، تاريخ ابن أبي خيثمه:70/2، الرقم:1818، دلائل النبوة للبيھقي:47/7، الاستيعاب لابن عبدالبر:1149/3، تاريخ دمشق لابن عساكر:345/44، 489/56)
تبصره :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے، کیونکہ :
اس میں (سلیمان بن مہران) الاعمش ”مدلس“ ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں، سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا نقبل من مدلس حديثا حتي يقول فيه: حدثني أو سمعت …….
”ہم کسی مدلس سے کوئی بھی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک وہ اس میں سماع کی تصریح نہ کر دے۔“(الرسالة للإمام الشافعي،ص:380)
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا يكون حجة فيما دلس.
”مدلس راوی کی تدلیس والی روایت قابل حجت نہیں ہوتی۔“ (الكامل لابن عدي:34/1، وسنده حسن)
حافظ سخاوی رحمہ اللہ (۸۳۱۔۹۰۲ھ) کہتے ہیں :
وممن ذھب إلی ھذا التفصیل الشافعی وابن معین و ابن المدینی.
”جو ائمہ کرام اس موقف کے حامل ہیں، ان میں امام شافعی، امام ابن معین اور امام ابن مدینی کے نام شامل ہیں۔“ (فتح المغيث:182/1)
حافظ علائی رحمہ اللہ (۶۹۴۔۷۶۱ھ) اسی کو ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
الصحيح الذي عليه جمھور إئمة الحديث والفقه والأصول.
”یہی وہ صحیح مذہب ہے جس پر جمہور ائمہ حدیث و فقہ و اصول قائم ہیں۔“ (جامع التحصيل،ص:111)
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (۳۶۸۔۴۶۳ ھ) فرماتے ہیں :
وقالوا: لا يقبل تدليس لأعمش.
”اہل علم کہتے ہیں کہ اعمش كی تدلیس قبول نہیں ہوتی۔“ (التمھيد:30/1)
علامہ عینی حنفی (۷۶۲۔۸۵۵ھ) لکھتے ہیں :
إن الأعمش مدلس، وعنعنة المدلس لا تعتبر إلا إذا علم سماعه.
”بلاشبہ (سلیمان بن مہران) اعمش مدلس ہیں اور مدلس راوی کی عن والی روایت اسی وقت قابل اعتبار ہوتی ہے جب اس کے سماع کی تصریح مل جائے۔“ (عمدة القاري شرح صحيح البخاري، تحت الحديث:219)
اس روایت کی صحت کے مدعی پر سماع کی تصریح لازم ہے۔
مالک الدار ”مجہول الحال“ ہے۔ سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (384/5) کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
اس کے بارے میں حافظ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا أعرفه. ”میں اسے نہیں جانتا۔“ (الترغيب والترھيب:29/2)
حافظ ہیشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لم أعرفه. ”میں اسے نہیں پہچان سکا۔“ (مجمع الزوائد:123/3)
اس کے صحابی ہونے پر کوئی دلیل نہیں، لہٰذا بعض بعد والوں کا اسے صحابہ کرام میں ذکر کرنا صحیح نہیں۔
نیز حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (البداية والنھاية: 167/5) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (الاصابة:484/3) کا اس روایت کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دینا ان کا علمی تسامح ہے۔ ان کی یہ بات اصولِ حدیث کے مطابق درست نہیں۔ صرف حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر رحمہا اللہ کا اسے صحیح کہنا بعض لوگوں کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ بہت سی ایسی روایات کو یہ لوگ بھی صحیح تسلیم نہیں کرتے جنہیں ان دونوں حفاظ نے صحیح کہا ہوا ہے اور بہت سی ایسی روایات کو یہ لوگ بھی ضعیف تسلیم نہیں کرتے جنہیں ان دونوں حفاظ نے ضعیف کہا ہوا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ خود سلیمان بن مہران اعمش کی تدلیس کی مضرت کے بارے میں لکھتے ہیں :
وعندي أن إسناد الحديث الذي صححه ابن القطان معلول، لأنه لا يلزم من كون رجاله ثقات أن يكون صحيحا، لأن الأعمش مدلس، ولم يذكر سماعه من عطاء، وعطاء يحتمل أن يكون ھو عطاء الخراساني، فيكون فيه تدليس التسوية بإسقاط نافع بين عطاء وابن عمر.
”میرے خیال کے مطابق جس حدیث کو ابن القطان نے صحیح کہا ہے، وہ معلول (ضعیف) ہے، کیونکہ راویوں کے ثقہ ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا۔ اس میں اعمش مدلس ہیں اور انہوں نے عطاء سے اپنے سماع کا ذکر نہیں کیا۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سند میں مذکور عطاء، خراسانی ہوں، یوں اعمش کی تدلیس تسویہ بن جائے گی، کیونکہ اس صورت میں انہوں نے عطاء اور سیدنا ابن عمر کے درمیان نافع کا واسطہ بھی گرا دیا ہے۔“ (التلخيص الحبير:19/3)
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قال علي بن المديني: قال يحيی بن سعيد: قال سفيان وشعبة: لم يسمع الأعمش ھذا الحديث من ابراھيم التيمي، قال أبو عمر : ھذه شھادة عدلين إمامين علي الأعمش بالتدليس، وأنه كان يحدث عن من لقيه بما لم يسمع منه، وربما كان بينھما رجل أو رجلان، فلمثل ھذا وشبھه قال ابن معين وغيره في الأعمش : إنه مدلس.
”امام علی بن مدینی نے امام یحییٰ بن سعید قطان سے نقل کیا ہے کہ امام شعبہ اور سفیان نے فرمایا کہ اعمش نے یہ حدیث ابراہیم تيمی سے نہیں سنی۔ میں (ابن عبدالبر) کہتا ہوں کہ اعمش کے مدلس ہونے پر یہ دو عادل اماموں کی گواہی ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعمش ان لوگوں سے اَن سنی روایات بیان کرتے تھے، جن سے ان کی ملاقات ہوئی ہوتی تھی۔ بسا اوقات ایسے لوگوں سے اعمش دو واسطے گرا کر بھی روایت کر لیتے تھے۔ اسی طرح کے حقائق کی بنا پر امام ابن معین وغیرہ نے اعمش کو مدلس قرار دیا ہے۔“ (التمھيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد:32/1)
تنبیہ:
(تاریخ طبری:98/4) اور حافظ ابن کثیر کی (البدایہ والنہایہ:71/7) میں ہے:
حتي أقبل بلال بن الحارث المزني، فاستأذن عليه، فقال : أنا رسول رسول الله إليك، يقول لك رسول الله.
”بلال بن حارث مزنی آئے، انہوں نے اجازت طلب کی اور کہا: میں آپ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایلچی ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے فرماتے ہیں۔۔۔“
یہ روایت بھی جھوٹ کا پلندا ہے، کیونکہ :
شعیببن ابراہیم رفاعی کوفی ”مجہول“ راوی ہے۔
اس کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وشعيب بن إبراھيم ھذا، له أحاديث وأخبار، وھو ليس بذلك المعروف، ومقدار ما يروي من الحديث والأخبار ليست بالكثيره، وفيه بعض النكرة، لأن في أخباره وأحاديثه ما فيه تحامل علي السلف.
”اس شعیب بن ابراہیم نے کئی احادیث اور روایات بیان کی ہیں۔ یہ فن حدیث میں معروف نہیں۔ اس کی بیان کردہ احادیث و روایات زیادہ نہیں، پھر بھی ان میں کچھ نکارت موجود ہے، کیونکہ ان میں سلف صالحین کی اہانت ہے۔“ (الكامل في ضعفاء الرجال:7/5)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فيه جھالة اس میں جہالت ہے۔ (ميزان الاعتدال:275/2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وفي ثقات ابن حبان (309/8) : شعيب بن ابراھيم من أھل الكوفة، يروي عن محد بن أبان البلخي (الجعفي) ، روي عنه يعقوب بن سفيان، (قلت) فيحتل أن يكون ھو، والظاھر، أنه غيره
”ثقات ابن حبان میں ہے کہ : شعیب بن ابراہیم کوفی، محمد بن ابان بلخی سے روایت کرتا ہے اور اس سے یعقوب بن سفیان سے روایت کیا ہے۔ (میں کہتا ہوں) ممکن ہے کہ یہ راوی وہی ہو، لیکن ظاہراً یہ کوئی اور راوی لگتا ہے۔“ (لسان الميزان:145/3)
سیف بن عمر راوی باتفاق محدثین ’’ضعیف، متروک، وضاع‘‘ ہے۔ اس کی روایت کا قطعاً کوئی اعتبار نہیں۔
اس کا استاذ سہل بن یوسف بن سہل بن مالک انصاری بھی ”مجہول“ ہے۔
اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
مجھول الحال. ”یہ مجہول الحال راوی ہے۔“ (لسان الميزان:122/3)
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ اس کی ایک روایت کو ”موضوع و منکر“ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
لا يعفرف. ”یہ مجہول الحال راوی ہے۔“ (الاستيعاب في معرفة الأصحاب:667/2)
ثابت ہوا کہ بعض الناس کا یہ کہنا کہ مذکورہ روایت میں خواب دیکھنے والا شخص، صحابی رسول سیدنا بلال بن حارث مزنی ہے، بالکل بےبنیاد ہے۔
دلیل نمبر ۲:
عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں :
سمعت ابن عمر يتمثل بشعر أبي طالب: وأبيض يستسقي الغمام بوجھه ثمال اليتامي عصمة للأ رامل
”سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو میں نے ابوطالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا: وہ گورے رنگ والے، جن کے چہرے کے وسیلے سے بارش طلب کی جاتی ہے، یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں۔“ (صحیح البخاری:137/1،ح1008)
وقال عمر بن حمزة، حدثنا سالم، عن أبيه، ربما ذكرت قول الشاعر، وأنا أنظر إلي وجه النبي صلی الله عليه وسلم يستسقي، فما ينزل حتي يجيش كل ميزاب۔ وأبيض يستسقي الغمام بوجھه ثمال اليتامي عصمة للأ رامل
”عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ بن عمر نے اپنے والد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ ٔاقدس کو تکتا کہ آپ کے سفید رنگ کے رُخِ زیبا کے ذریعے بارش طلب کی جاتی ہے، آپ یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے) اترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے۔“ (صحیح البخاری:137/1،ح1008، تعليقا، سنن ابن ماجه:1272، مسند الإاما أحمد:93/2،ح:5673، السنن الكبريٰ للبيھقي:352/3، تعليق التعليق لابن حجر:389/2، وسنده حسن)
تبصرہ:
یہاں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا وسیلہ مراد ہے، جو کہ مشروع اور جائز ہے۔
شارحِ بخاری، علامہ ابن بطال رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
قول عمر : اللھم ! إنا كنا نتوسل إليك بنبينا، وھو معني قول أبي طالب: وأبيض يستسقي الغمام بوجھه….
”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: اے اللہ !ہم تیری طرف تیرے نبی (کی دعا) کا وسیلہ لاتے تھے۔ ابوطالب کے اس قول کا بھی یہی مطلب ہے کہ وہ سفید رنگ والے جن کے چہرے کے ذریعے بارش طلب کی جاتی ہے۔۔۔“ (شرح صحیح البخاری:9/3)
یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث اور اس حدیث کا معنی و مفہوم ایک ہی ہے۔ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں وسیلے سے مراد دعا والا وسیلہ ہی ہے، لہٰذا اس حدیث سے بھی بالکل یہی مسئلہ ثابت ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس روایت میں واضح الفاظ موجود ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پروردگار سے دعا کرتے رہتے اور جب تک بارش شروع نہ ہو جاتی، دعا ختم نہ فرماتے۔ بھلا اس سے ذات کا وسیلہ کیسے ثابت ہوا؟
شارحِ بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وأن ابن عمر أشار إلی قصة وقعت في الإسلام حضرھا ھو، لا مجرد ما دل عليه شعر أبي طالب، وقد علم من بقية لأحاديث أنه صلی الله عليه وسلم إنما استسقی إجابة لسؤال من سأله في ذلك
”اس حدیث میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا دورِ اسلام میں انہوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ فرمایا۔ انہوں نے صرف ابوطالب کے شعر کے مفہوم پر اعتماد کرتے ہوئے یہ بات نہیں کہہ دی۔ باقی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے یہ دعا کچھ لوگوں کے مطالبے پر فرمائی تھی۔“(فتح الباري:495/2)
علامہ محمد بشیر سہسوانی ہندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولم يرد في حديث ضعيف، فضلا عن الحسن أو الصحيح، أن الناس طلبوا السقيا من الله في حياته متوسلين به صلی الله عليه وسلم، من غير أن يفعل صلی الله عليه وسلم ما يفعل في الاستسقاء المشروع، من طلب السقيا والدعاء والصلاة وغيرھما، مما ثبت بالأحاديث الصحيحة، ومن يدعي وردوده فعليه الإثبات.
”کسی حسن یا صحیح حدیث میں تو کجا، کسی ضعیف حدیث میں بھی یہ بات مذکور نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ میں لوگوں نے آپ کا وسیلہ اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح احادیث سے ثابت بارش طلب کرنے کے مشروع طریقے، یعنی دعا اور نماز وغیرہ کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کیا ہو۔ جو شخص ایسا دعویٰ کرتا ہے، اس کی دلیل اسی کے ذمے ہے۔“ (صيانة الإنسان عن وسوسة الشيخ دحلان، ص:213)
تنبیہ :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے مذکورہ شعر پڑھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس وقت ایک فیصلہ فرما رہے تھے۔ آپ نے یہ شعر سن کر فرمایا: اللہ کی قسم ! اس سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔ (مسند الإمام أحمد:7/1، مصنف ابن أبي شيبه:20/12، طبقات ابن سعد:198/3، مسند أبي بكر للمروزي:91/1 )
لیکن اس کی سند ’’ضعیف ‘‘ ہے کیونکہ اس کا راوی علی بن زید بن جدعان جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہے۔ نیز یہ ’’مختلط‘‘ بھی ہے۔
حافظ ہیشمی رحمہ اللہ کہتے ہیں : وضعفه الجمھور ”اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔“ (مجمع الزوائد:209،206/8)
حافظ ابن عراقی رحمہ اللہ بھی کہتے ہیں : ضعفه الجمھور (طرح التثريب:82/1)
علامہ بوصیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : والجمھور علی تضعيفہ ”جمہور محدثین کرام اسے ضعیف کہتے ہیں۔“ (مصباح الزجاجة:84)
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ کہتے ہیں : وادعي عبدالحق أن الأكثر علی تضعيف علي بن زيد ”اور عبدالحق نے دعویٰ کیا ہے کہ اکثر محدثین علی بن زید کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔“ (البدر المنير:434/4)
ابوالحسن ابراہیم بن عمر بقاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعفه الجمھور ”اسے جمہور محدثین نے ضعیف کہا ہے۔“ (نظم الدررفي تناسب الآيات والسور:181/12)
علی بن زید بن جدعان کو امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام ابن عدی (الكامل:413/4)، امام ابو حاتم رازی اور ابوزرعہ رازی (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم:187/6) وغیرہم نے ضعیف، لیس بالقوی کہا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف‘‘ ہی قرار دیا ہے۔ (تقريب التھذيب:4734)
دلیل نمبر ۳:
امیہ بن عبداللہ بن خالد بن اسید بیان کرتے ہیں :
كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يستفتح بصعاليك المھاجرين المعج.
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تنگدست مہاجرین کے وسیلے سے فتح کی دعا کیا کرتے تھے۔ (المعجم الكبير للطبراني:292/1)
تبصرہ:
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے، کیونکہ :
اس کی سند متصل نہیں۔ امیہ بن عبداللہ تابعی ہے اور ڈائریکٹ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہا ہے۔
جیسا کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
لا تصح عندي صحبته، والحديث مرسل.
”میرے نزدیک اس کا صحابی ہونا ثابت نہیں، لہٰذا یہ روایت مرسل (منقطع) ہے۔“ (الاستيعاب في معرفة الأصحاب:38/1)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليست له صحبة ولا رواية.
”اس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات اور روایت نہیں کی۔“ (الإصابة:133/1)
امام ترمذی رحمہ اللہ (۲۰۰۔۲۷۹ھ) فرماتے ہیں :
والحديث إذا كان مرسلا، فإنه لا يصح عند أكثر أھل الحديث، قد ضعفه غير واحد منھم.
”مرسل حدیث اکثر محدثین کرام کے نزدیک صحیح نہیں ہوتی۔ بہت سے محدثین نے مرسل کو ضعیف قرار دیا ہے۔“ (العلل الصغير في آخر الجامع،ص:896،897،طبع دارالسلام)
اس میں ابو اسحاق سبیعی کی ”تدلیس“ بھی موجود ہے۔ سماع کی تصریح نہ مل سکنے کی بنا پر یہ روایت ”مدلس“ بھی ہے، لہٰذا یہ دو وجہوں سے ”ضعیف“ ہے۔
دلیل نمبر ۴:
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
أبغوني في ضعفاءكم، فإنكم إنما ترزقون وتنصرون بضعفائكم
’’مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو۔ بلاشبہ تمہیں اپنے کمزوروں کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور ان ہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔‘‘ (مسند احمد 198/5، سنن ابي داود 2594، سنن النسائي:3181، سنن الترمذي:1702، وسند صحيح)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’حسن صحیح‘‘، امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ’’صحیح‘‘ اور امام حاکم رحمه الله نے (105،104/2) نے ’’صحیح الاسناد‘‘ کہا ہے۔
تبصرہ:
معاشرہ کے کمزور اور نادار لوگ جو صالحین ہوں، ان کی نیکی اور دعا کی وجہ سے معاشرہ میں آسودگی آتی ہے،
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :
إنما ينصر الله ھذه الأمة بضعيفھا، بدعوتھم وصلاتھم وإخلاصھم.
’’اللہ تعالیٰ اس امت کی مدد ان کمزور لوگوں کی دعا، نماز اور ان کے اخلاص کی وجہ سے کرتا ہے۔‘‘ (سنن النسائي:3180، حلية الأولياء لأبي نعيم لأصبھاني:26/5، وسنده صحيح)
اس روایت گزشتہ ’’ضعیف‘‘ روایت کا معنی بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اتنی وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس حدیث سے فوت شدگان کا توسل ثابت کرے تو اس کا یہ عمل دیانت علمی کے خلاف ہے۔ اس سے فوت شدگان کے توسل کا جواز ثابت کرنا شرعی نصوص کی تحریف ہے۔ اس سے تو زندہ لوگوں کی دعا کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے اور اسے اہل سنت و الجماعت اہل الحدیث جائز اور مشروع ہی سمجھتے ہیں۔
دلیل نمبر ۵:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپسی پر جعرانہ تشریف لائے۔ اس وقت قبیلہ ہوازن کے بچوں اور عورتوں میں سے چھ ہزار قیدی آپ کے ہمراہ تھے۔ اونٹوں اور بکریوں کا تو کوئی شمار ہی نہ تھا۔ ہوازن کا ایک وفد مشرف بہ اسلام ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے درخواست کی کہ ہم پر احسان فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: قیدیوں اور اموال میں سے ایک چیز پسند کر لو۔ انہوں نے عرض کیا: ہمیں قیدی محبوب ہیں آپ نے فرمایا: جو قیدی میرے ہیں یا بنو عبدالمطلب کے ہیں، وہ تمہارے ہیں۔ باقی جو تقسیم ہو چکے ہیں، ان کے لیے یہ طریقہ اختیار کرو:
وإذا ما أنا صليت الظھر بالناس فقوموا، فقولوا: إنا نستشفع برسول الله إلي المسلمين، وبالمسلمين إلي رسول الله في أبنائنا ونسائنا، فسأعطيكم عند ذلك وأسأل لكم.
’’جب میں لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھا دوں تو تم کھڑے ہو کر کہنا: ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کرتے ہیں کہ مسلمانوں سے ہماری شفاعت (سفارش) فرمائیں اور مسلمان ہماری شفاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کریں، ہمارے بیٹوں اور عورتوں کے حق میں، تو میں تمہیں اس وقت عطا کر دوں گا اور تمہاری سفارش کروں گا۔‘‘
انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اکثر صحابہ نے عرض کی : جو کچھ ہمارے پاس ہے، وہ آپ کا ہے۔ باقی صحابہ سے آپ نے وعدہ فرمایا کہ ہر قیدی کے بدلے مالِ غنیمت سے چھ اونٹنیاں دی جائیں گی۔ اس طرح ہوازن کو تمام قیدی واپس مل گئے۔ (سيرة ابن ھشام مع الروض الأنف:306/2، وسنده حسن)
تبصرہ:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ زندہ انسان سے سفارش کروائی جا سکتی ہے، سو اس سے اہل سنت و الجماعت انکاری نہیں۔ اس سے فوت شدگان کی شخصیات کا توسل کیسے ثابت ہوا؟ یہ تو ہماری دلیل ہے جو نادان دوست خود ہی پیش کیے جاتے ہیں۔
دلیل نمبر ۶:
سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض گزار ہوئے : آقا ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے شفا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر آپ چاہیں تو دعا کر دیتا ہوں اور اگر چاہیں تو صبر کر لیں، وہ آپ کے لیے بہتر ہو گا۔ انہوں نے عرض کیا : آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا ہی کر دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اچھی طرح سنوار کر وضو کرنے اور پھر دو رکعتیں پڑھ کر یہ دعا کرنے کا حکم دیا :
اللھم ! إني أسئلك وأتوجه إليك بنبي محمد نبي الرحمة، يا محمد ! إني أتوجه إلي ربي بك أن يكشف لي عن بصري، اللھم ! شفعه في وشفعني في نفسي۔
’’اے اللہ ! بےشک میں تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ میں اپنے نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تیری طرف (دعا کے لیے) متوجہ کرتا ہوں۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں آپ کو اپنے رب کی طرف (دعا کے لیے) متوجہ کرتا ہوں کہ وہ میری نظر لوٹا دے۔ اے اللہ ! تو میرے بارے میں اپنے نبی کی اور میری اپنی سفارش قبول فرما۔ جب وہ واپس لوٹے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بینائی لوٹا دی تھی۔“ (مسند احمد : 138/4، سنن الترمذي : 3578، عمل اليوم والليلة للنسائي : 659، واللفظ له، سنن ابن ماجه : 1385، مسند عبد بن حميد : 379، وسنده حسن)
تبصره :
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن صحیح غریب“ اور امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (1219) نے ’’صحیح“ کہا ہے۔
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : ابواسحاق نے کہا ہے کہ یہ حدیث ’’صحیح“ ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ (313/1) نے اس حدیث کو صحیح علی شرط الشیخین قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے (دلائل النبوة : 167/6) نے اس کی سند کو ’’صحیح“ کہا ہے۔
بعض لوگوں نے اس حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے وسیلہ کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ استدلال باطل، بلکہ ابطل الاباطتل ہے کیونکہ حدیث میں مذکور ہے کہ اس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی تھی۔ جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ اگر آپ چاہیں تو میں دعا کر دیتا ہوں، اگر دعا نہ کرائیں اور بیماری پر صبر کریں تو بہتر ہے، لیکن صحابی مذکور نے آپ کی دعا کو ترجیح دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا و سفارش فرما دی۔ اس کو اچھی طرح وضو کرنے کا حکم دیا، پھر دو رکعت نماز ادا کرنے کو کہا اور انہیں دعا کے الفاظ بھی سکھا دئیے، انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ اپنے حق میں دعا بھی کر دی اور کہا : ”اے اللہ ! تو میرے بارے میں اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور خود میری دعا و سفارش قبول فرما۔“
اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے وسیلہ کا ذکر تک نہیں بلکہ آپ کی حیات طیبہ میں آپ کی دعا و سفارش کا وسیلہ پیش کرنے کا ذکر ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (۶۶۱۔ ۷۲۸ ھ ) فرماتے ہیں :
وحديث الأعمی لا حجة لھم فيه، فإنه صريح في أنه إنما توسل بدعاء النبي صلی الله عليه وسلم وشفاعته.
’’نابینا صحابی والی حدیث میں ان لوگوں کی کوئی دلیل نہیں، کیونکہ اس میں یہ بات بڑی واضح ہے کہ صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور سفارش کا وسیلہ اختیار کیا تھا۔ (قاعدة جليلة في التوسل و الوسيلة، ص : 64)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں یا وفات کے بعد کسی صحابی یا تابعی سے آپ کی ذات کا وسیلہ پیش کرنا قطعاً ثابت نہیں۔ اس طرح کے کام کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اس عمل پر کتاب و سنت سے دلیل پیش کریں۔
فائدہ : ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا صحابی کو یہ دعا سکھائی :
اللھم ! فشفعني في نفسي، وشفع نبي في رد بصري
”اے اللہ ! میری بصارت واپس کرنے کے حوالے سے میری اور میرے نبی کی سفارش قبول فرما لے۔“
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وإن كانت حاجة، فافعل مثل ذلك
’’اگر کوئی اور حاجت ہو تو اسی طرح کریں۔“ (تاريخ ابن أبي خيثمه، قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة لابن تيمية، ص : 102، مسند احمد : 138/4، مختصرا، وسنده حسن )
یہ روایت بالکل صریح ہے کہ نابینا صحابی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا و سفارش کا وسیلہ اختیار کرنے کی ہدایت کی تھی، نہ کہ اپنی ذات کا۔ مراد یہ تھی کہ اگر کوئی اور پریشانی ہو تو میرے پاس آئیں اور دعا کرانے کے بعد اللہ تعالیٰ کو میری دعا کا وسیلہ دیں۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لے گا۔ یہ سلسلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک محدود تھا، کیونکہ آپ زندگی میں ہی حاجت مندوں کے لیے دعا فرماتے کی تھے۔ آپ کی وفات کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کو آپ کا وسیلہ پیش نہیں کیا۔
دلیل نمبر ۷:
ایک شخص سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی ضرورت میں آیا کرتا تھا اور عثمان رضی اللہ عنہ (مشغولیت کی وجہ سے ) اس کی طرف متوجہ نہ ہوتے اور اس کی ضرورت میں غور نہ فرماتے۔ وہ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے شکایت کی۔ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : لوٹا لاؤ، وضو کرو، پھر مسجد جا کر دو رکعت نماز پڑھو، پھر کہو :
اللھم ! إني أسئلك، وأتوجه إليك بنبينا محمد صلي الله عليه وسلم نبي الرحمة، يامحمد ! إني أتوجه إلي ربي، فيقضي حاجتي .
(اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور اپنے نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تیری طرف متوجہ کرتا ہوں۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں آپ کو اپنے رب کی طرف (دعا کے لیے) متوجہ کرتا ہوں کہ وہ میری ضرورت کو پورا کر دے۔ ) پھر اپنی ضرورت کو اللہ کے سامنے رکھ دو، پھر میرے پاس آ جاؤ تاکہ میں تمہارے ساتھ چلوں۔ اس شخص کی ضرورت پوری ہوئی۔ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہی دعا ایک نابینا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی تو اس کی بینائی لوٹ آئی۔ (التاريخ الكبير للبخاري : 210/6، العلل لابن أبي حاتم الرازي : 190/2، المعجم الكبير للطبراني : 31، 30/9، ح : 8311، المعجم الصغير للطبراني : 184، 183/1، الدعاء للطبراني : 1287/2، 1288، ح : 1050، معرفة الصحابة لأبي نعيم لأصبھاني : 1959/4، 1960، ح : 4928)
تبصره :
اس کی سند ’’ضعیف“ ہے، کیونکہ عبداللہ بن وہب مصری یہ روایت اپنے استاذ شبیب بن سعید حبطي (ثقہ ) سے کر رہے ہیں اور خود شبیب بن سعید اپنے استاذ روح بن القاسم سے روایت کر رہے ہیں۔
امام الجرح والتعدیل ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولشبيب بن سعيد، نسخة الزھري عنده، عن يونس عن الزھري، وھي أحاديث مستقيمة، وحدث عنه ابن وھب بأحاديث مناكير .
”شبیب کے پاس امام زہری رحمہ اللہ کی روایات پر مشتمل ایک نسخہ ہے جو وہ یونس کے واسطے سے زہری سے بیان کرتے ہیں اور وہ مستقیم احادیث ہیں۔ تاہم ابن وہب نے اس سے منکر احادیث بیان کی ہیں۔“ (الكامل لابن عدي : 31/4)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا باس بحديثه من رواية ابنه أحمد عنه، لا من رواية ابن وھب .
’’اس کی جو روایات اس کے بیٹے سے مروی ہیں، ان میں کوئی خرابی نہیں، البتہ ابن وہب سے اس کی جو روایات مروی ہیں، ان میں خرابی ہے۔“ (تقريب التھذيب : 2739)
نیز فرماتے ہیں :
وروي عنه ابن وھب أحاديث مناكير، فكأنه لما قدم مصر، حدث من حفظه، فغلط .
’’اس سے ابن وہب نے منکر احادیث بیان کی ہیں، گویا کہ جب یہ مصر آیا تو اس نے اپنے حافظے سے روایات بیان کیں اور غلطیاں کیں۔“ (ھدي الساري، ص : 409)
یہ روایت بھی شبیب بن سعید سے عبداللہ بن وہب مصری بیان کر رہے ہیں۔ یہ جرح مفسر ہے، لہٰذا یہ روایت ’’ضعیف“ اور ’’منکر“ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ شبیب بن سعید جب مصر میں گیا تو وہاں اس نے اپنے حافظہ سے احادیث بیان کیں، جن میں سے وہ غلطی اور وہم کا شکار ہو گیا۔
اعتراض :
شبیب بن سعید ابوسعید البصری کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔
جواب : حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۷۷۳۔ ۸۵۲ھ) لکھتے ہیں :
أخرج البخاري من رواية ابنه (أحمد) عن يونس (بن يزيد الأيلي) أحاديث، لم يخرج من روايته عن غير يونس، ولا من رواية ابن وھب عنه شيئا …
”امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے بیٹے سے وہ روایات لی ہیں جو وہ اپنے والد سے یونس بن یزید ایلی کے واسطے سے بیان کرتا ہے۔ امام صاحب نے شبیب کی وہ روایات بیان نہیں کیں جو وہ یونس کے علاوہ کسی اور سے بیان کرتا ہے، نہ ہی ابن وہب سے ان کی کوئی روایت بخاری میں ہے۔“ (ھدي الساري، ص : 409)
حاصل کلام یہ ہے کہ شبیب بن سعید سے ان کے شاگرد عبداللہ بن وہب مصری بیان کریں تو روایت ’’منکر“ اور ’’ضعیف“ ہوتی ہے۔ زیر بحث روایت بھی عبداللہ بن وہب المصری بیان کر رہے ہیں، اس لیے یہ ”منکر“ اور ’’ضعیف“ ہے، لہٰذا امام طبرانی رحمہ اللہ کا اس کو ”صحیح“ کہنا صحیح نہ ہوا۔
تنبیہ ۱ :
عون بن عمارہ بصری نے شبیب بن سعید کی متابعت کر رکھی ہے۔ (المستدرك للحاك : 526/1، معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبھاني : 4928)
لیکن عون بن عمارہ بصری خود ’’ضعیف“ راوی ہے۔ (تقريب التھذيب لا بن حجر : 5224)
لہٰذا یہ متابعت مفید نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ عون بن عمارہ والی روایت میں زیر بحث الفاظ بھی موجود نہیں۔
تنبیہ ۲ :
دلائل النبوة للبيھقي (167/6) میں عبداللہ بن وہب مصری کی متابعت احمد بن شبیب نے کر رکھی ہے۔
لیکن اس کی سند میں ابومحمد بن عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن ریالی نامی راوی موجود ہے جس کے حالات نہیں مل سکے۔ لہٰذا یہ متابعت مفید نہیں۔ اسی طرح دلائل النبوة بیہقی (167/6) کی ایک اور روایت میں اسماعیل بن شبیب کی متابعت موجود ہے لیکن وہ خود ’’مجہول“ ہے۔ یوں یہ متابعت بھی کسی کام کی نہیں۔
دلیل نمبر ۸:
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی اطلاع ملی تو روتے ہوئے آئے اور چہرۂ انور سے کپڑا اٹھا کر عرض کیا :
ولو لا أن موتك كان اختيارا منك، لجدنا لحزنك بالنفوس، اذكرنا يا محمد ! عند ربك، ولنكن من بالك .
’’ (اے اللہ کے رسول ! ) اگر آپ کی موت آپ کی اپنی صوابدید پر واقع نہ ہوئی ہوتی تو ہم آپ کی جدائی کے غم میں اپنی جانیں کھو دیتے۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ہمیں اپنے ربّ کے ہاں یاد کیجیے گا اور ہمارا خیال رکھیے گا۔ “ (تخريج أحاديث الإحياء للعراقي : 1855/1)
تبصره :
ہم اس کی سند پر مطلع نہیں ہو سکے،
البتہ حافظ عراقی نے اس کو امام ابن ابی الدنیا کی کتاب ’’العزاء“ کی طرف منسوب کر کے اس کی سند کو ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔
امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے :
انظروا إلي الإسناد، فإن صح الإسناد، وإلا فلا تغتر بالحديث إذا لم يصح الإسناد .
’’تم سند کو دیکھو۔ اگر سند صحیح ہو بہتر، بصورت ديگر حدیث کو دیکھ کر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ “ (الجامع لأخلاق الراوي و آداب السامع للخطيب البغدادي : 102/2، رقم : 1301، وسنده صحيح)
دلیل نمبر ۹:
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا انفلتت دابة أحدكم بأرض فلاة فليناد : يا عباد الله ! احبسوا علي، يا عباد الله ! احبسوا علي، فإن لله في الأرض حاضرا، سيحبسه عليكم.
’’جب تم میں سے کسی کی سواری جنگل بیابان میں چھوٹ جائے تو اس شخص کو یوں پکارنا چاہیے : اے اللہ کے بندو ! میری سواری کو پکڑا دو، اے اللہ کے بندو ! میری سواری کو پکڑا دو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے بندے (فرشتے) اس زمین میں ہوتے ہیں، وہ تمہیں (تمہاری سواری) پکڑا دیں گے۔ “ (المعجم الكبير للطبراني : 217/10، ح10518، واللفظ له، مسند أبي يعلي : 177/9، ح5269، عمل اليوم والليلة لابن السني : 509)
تبصره :
اس کی سند کئی وجوہ سے سخت ترین ’’ضعیف“ ہے :
معروف بن حسان ’’غیر معروف“ اور ’’مجہول“ ہے،
امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ نے اسے ’’مجہول“ قرار دیا ہے۔ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم : 323/8)
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے اس راوی کو ’’منکر الحدیث“ کہا ہے۔ (الكامل في ضعفاء الرجال : 325/6)
حافظ ہیشمی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔ (مجمع الزوائد : 132/10)
اس کی توثیق میں ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں۔
اس میں قتادہ بن دعامہ تابعی ’’مدلس“ ہیں جو کہ عن سے بیان کر رہے ہیں، سماع کی تصریح ثابت نہیں۔
ان کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ (۶۷۳۔ ۷۴۷ھ) فرماتے ہیں :
وھو حجة بالإجماع إذا بين السماع، فإنه مدلس معروف بذلك .
’’قتادہ جب سماع کی صراحت کریں تو بالاجماع حجت ہیں۔ وہ معروف مدلس ہیں۔ “ (سير أعلام النبلاء : 270/5)
سعید بن ابی عروبہ بھی ’’مدلس“ اور ’’مختلط“ ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حديث غريب أخرجه ابن السني والطبراني، وفي السند انقطاع بين ابن بريدة وابن مسعود .
’’یہ غریب حدیث ہے جسے ابن السنی اور طبرانی نے بیان کیا ہے، اس کی سند میں ابن بریدہ اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے۔ “ (شرح الاذكار لابن علان : 150/5)
ابن السنی کی سند میں ابن بریدہ اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان عن أبیہ کا واسطہ ہے، یہ ناسخ کی غلطی ہے، کیونکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس سند کو ’’منقطع“ قرار دیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہی سند ابویعلیٰ کی بھی ہے، لیکن مسند ابی یعلیٰ میں بھی یہ واسطہ مذکور نہیں، لہٰذا اس کا ’’منقطع“ ہونا واضح ہے۔
علامہ بوصیری رحمہ اللہ اس کے بارے میں کہتے ہیں :
وسنده ضعيف لضعف معروف ابن حسان.
’’اس کی سند معروف بن حسان کے ضعیف ہونے کی بنا پر ضعیف ہے۔ “ (اتحاف الخيره المھرة : 500/7)
حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وسنده ضعيف، لكن قال النووي : إنه جربه ھو وبعض أكابر شيوخه.
’’اس کی سند تو ضعیف ہے، لیکن حافظ نووی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اور ان کے بعض اکابر شیوخ نے اس کا تجربہ کیا ہے۔ “ (الابتھاج بأذكار المسافر والحاج للسخاوي، ص:39)
اس کے تعاقب میں ناصر السنۃ، محدث العصر، علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
العبادات لا تؤخذ من التجارب، سيما ما كان منھا في أر غيي كھذا الحديث، فلا يجوز الميل الي تصحيحه، كيف وقد تمسك به بعضھم في جواز الاستغاثه بالموتي عند الشدائد، وھو شرك خالص، والله المستعان !
’’عبادات تجربوں سے اخذ نہیں کی جا سکتیں، خصوصاً ایسی عبادات جو کسی غیبی امر کے بارے میں ہوں، جیسا کہ یہ حدیث ہے، لہٰذا تجربے کو بنیاد بنا کر اس کو صحیح قرار دینے کی طرف میلان ظاہر کرنا جائز نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے، جب کہ بعض لوگوں نے اس سے مصیبتوں کے وقت مردوں سے مدد مانگنے پر بھی استدلال کیا ہے۔ یہ خالص شرک ہے، اللہ محفوظ فرمائے ! “ (سلسلة الأحاديث الضعيفة : 108/2، 109، ح655)
مذکورہ روایت کا ایک شاہد بھی ہے۔
اس میں ابان بن صالح بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا نفرت دابة أحدكم أو بعيره بفلاة من الأرض، لا يري بھا أحد، فليقل : أعينوني عبادالله ! فإنه يستعان.
’’جب تم میں سے کسی کا جانور یا اونٹ صحرا میں بھاگ جائے اور وہ دکھائی نہ دے پا رہا ہو تو اس شخص کو کہنا چاہیے : اے اللہ بندو ! میری مدد کرو۔ یوں اس کی مدد کی جائے گی۔ “ (مصنف ابن أبي شيبه : 132/7)
لیکن اس کی سند بھی ’’ضعیف“ ہے، کیونکہ :
یہ منقطع بلکہ ’’معضل“ (سخت منقطع ) روایت ہے۔ ایسی روایت قابل اعتبار نہیں ہوتی۔
محمد بن اسحاق راوی ’’مدلس“ ہے، سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔
تنبیہ :
مصنف ابن أبي شيبه (103/6) کی سند میں محمد بن اسحاق ’’مدلس“ ہیں، سماع کی تصریح کہیں نہیں مل سکی۔ نیز ابان بن صالح صغار تابعین میں سے ہیں اور ڈائریکٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں، لہٰذا یہ سند ’’مرسل“ ہونے کی بنا پر بھی ’’ضعیف“ ہے۔
دلیل نمبر ۱۰:
عتبہ بن غزوان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا أضل أحدكم شيئا أو أراد أحدكم عونا، وھو بأرض ليس بھا أنيس، فليقل : يا عباد الله أغيثوني، يا عبادالله أغيثوني، فإن لله عبادا لا نراھم، وقد جرب ذلك .
’’جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے یا تم میں سے کسی کو مدد چاہیے ہو اور وہ ایسی جگہ میں ہو جہاں اس کا کوئی مددگار نہ ہو، تو اسے یہ کہنا چاہیے : اللہ کے بندو ! میری مدد کرو، اللہ کے بندو ! میری مدد کرو۔ يقيناً اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے بھی ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے اور یہ تجربہ شدہ بات ہے۔“ (المعجم الكبير للطبراني 118/17، 117)
تبصره :
یہ روایت ’’ضعیف“ ہے۔ کیونکہ :
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
إن زيد بن علي لم يدرك عتبة .
’’يقيناً زید بن علی نے عتبہ کا زمانہ نہیں پایا۔“ (مجمع الزوائد:132/10)
حافظ مناوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
سنده منقطع.
’’اس کی سند منقطع ہے۔“ (فيض القدير:307/1)
اس کی سند میں شریک بن عبداللہ قاضی کی ’’تدلیس“ اور اس کا ’’اختلاط“ بھی ہے۔ ان کے بیٹے عبدالرحمٰن بن شریک کا ان سے ’’اختلاط“ سے پہلے احادیث روایت کرنا ثابت نہیں۔
تنبیہ :
مذکورہ دونوں احادیث بلحاظِ سند ’’ضعیف“ ہیں۔
البتہ اگر ان میں مذکور ’’عباداللہ“ سے مراد فرشتے لیے جائیں تو صحیح حدیث سے ان کی تائید ہو جائے گی، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن لله ملائكة في الأرض سوی الحفظة، يكتبون ا سقط من ورق الشجر، فإذا أصاب أحدكم عرجة بأرض فلاة، فليناد : أعينوا عبادالله.
’’زمین میں حفاظت والے فرشتوں کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہوتے ہیں جو درختوں کے گرنے والے پتوں کو لکھتے ہیں۔ جب تم میں سے کسی کو ویرانے میں چلتے ہوئے پاؤں میں موچ آ جائے تو وہ کہے : اللہ کے بندو ! میری مدد کرو۔“ (كشف الأستار عن زوائد البزار:3128/1، وسنده حسن)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رجاله ثقات. ’’اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔“ (مجمع الزوائد:32/10)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھذا حديث حسن الإسناد، غريب جدا .
’’اس کی سند حسن ہے لیکن یہ انوکھی روایت ہے۔“ (مختصر زوائد البزار:120/2، شرح ابن علان علي الأذكار:15/5)
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إنما هم الملائكة، فلا يجوز أن يلحق بهم المسلمون من الجن أو الإنس ممن يسمونهم برجال الغيب من الأولياء والصالحين، سواء كانوا أحياء أو أمواتا، فإن الاستغاثة بهم وطلب العون منهم شرك بين لأنهم لا يسمعون الدعاء، ولوسمعوا لما استطاعوا الاستجابة وتحقيق الرغبة، وهذا صريح في آيات كثيرة، منها قوله تبارك وتعالى : ﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ٭ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ.﴾ (فاطر 13 – 14)
’’اس حدیث میں اللہ کے بندوں سے مراد صرف فرشتے ہیں۔ ان کے ساتھ مسلمان جنوں اور ان اولیاء اور صالحین کو ملانا جنہیں غیبی لوگ کہا جاتا ہے، جائز نہیں، خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت ہو گئے ہوں۔ ان جنوں اور انسانوں سے مدد طلب کرنا واضح شرک ہے کیونکہ وہ پکارنے والے کی پکار کو سن نہیں سکتے۔ اگر وہ سن بھی لیں تو اس کا جواب دینے یا حاجت روائی کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات اس پر شاہد ہیں۔ ایک مقام پر فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ٭ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ﴾ (فاطر 13 – 14) ”اور جن لوگوں کو یہ مشرکین اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کھجور کی گٹھلی کے باریک غلاف کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار کو سن نہیں سکتے اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمہاری مراد پوری نہیں کر سکتے اور قیامت کے روز یہ لوگ تمہارے شرک سے لاعلمی کا اظہار کریں گے اور آپ کو (اللہ) خبیر کی طرح کوئی خبر نہیں دے سکتا۔“ (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرھا السيء في الأمة:111/2، ح:655)
یعنی اس حدیث میں ماتحت الاسباب مدد مانگنے کا بیان ہے، کیونکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے وہاں ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نیک بندوں کی اعانت پر مامور کر رکھا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اہل سنت و الجماعت اس پکار کو شرک کہتے ہیں جس میں کسی غائب یا فوت شدہ کو پکارا جائے یا کسی زندہ سے وہ چیز مانگی جائے جس پر وہ سرے سے قدرت ہی نہیں رکھتا۔ اسے مافوق الاسباب استعانت کہا جاتا ہے جو کہ ممنوع و حرام اور شرک ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فضللت الطريق في حجة وكنت ما شيا، فجعلت أقول : ياعباد الله ! دلونا علي الطريق، فلم أزل أقول ذلك، حتي وقعت الطريق .
’’ایک حج کے سفر میں مجھے راستہ بھول گیا۔ میں پیدل تھا، میں نے یہ کہنا شروع کیا : اللہ کے بندو ! مجھے راستہ بتاؤ۔ میں مسلسل کہتا رہا حتی کہ صحیح راستے پر آ گیا۔“ (مسائل الإمام أحمد لابنه عبدالله، ص:245)
علامہ نووی رحمہ اللہ نے اپنے بعض اکابر شیوخ کا ’’عباداللہ“ کے بارے میں جو تجربہ بیان کیا ہے، ظن غالب ہے کہ وہ فرشتوں ہی کے بارے میں ہو گا۔
دلیل نمبر ۱۱:
سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو خانے میں تین مرتبہ لبیک کہا اور تین مرتبہ نصرت (تیری اور تین مدد کی گئی ) کہا۔ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! میں نے آپ کو تین مرتبہ لبیک اور تین مرتبہ نصرت فرماتے ہوئے سنا ہے، گویا آپ کسی انسان سے گفتگو کر رہے ہوں۔ کیا وضو خانے میں کوئی آپ کے ساتھ تھا؟ آپ نے فرمایا : یہ بنو کعب کا رجز خواں مجھے پکار رہا تھا اور اس کا کہنا ہے کہ قریش نے ان کے خلاف بنو بکر کی مدد کی ہے۔ تین دن کے بعد آپ نے صحابہ کرام کو صبح کی نماز پڑھائی تو میں نے سنا کہ رجز خواں یہ اشعار پیش کر رہا تھا“ (المعجم الكبير للطبراني: 433/23، 434، ح:1052،، المعجم الصغير للطبراني: 167/2، ح:968، المخلصيات:1331، دلائل النبوة لابي القاسم الؤصبھاني:59)
تبصرہ :
اس کی سند ’’ ضعیف“ ہے، کیونکہ :
اس کے ایک راوی محمد بن نضلہ کے حالات نہیں مل سکے۔
امام شافعی رحمہ اللہ (۱۵۰۔۲۰۴ھ) فرماتے ہیں :
لا نقبل خبر من جھلناه، وكذلك لا نقبل خبر من لم نعرفه بالصدق وعمل الخير.
”ہم مجہول (العین) راوی کی روایت قبول نہیں کرتے۔ اسی طرح اس (مجہول الحال ) راوی کی روایت بھی ہمارے ہاں ناقابل قبول ہے، جس کی سچائی اور نیکی ہمیں معلوم نہیں۔“ (اختلاف الحديث،ص:45)
تنبیہ :
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس روایت میں یحییٰ بن سلیمان بن نضلہ راوی ’’ضعیف“ ہے۔ (مجمع الزوائد:164/6)
لیکن راجح یہی ہے کہ یحییٰ بن سلیمان بن نضلہ راوی ’’حسن الحدیث“ ہے، البتہ اس کے حفظ میں کلام ضرور ہے۔ واللہ اعلم
دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں وسیلہ بالذوات والاموات کا کوئی ذکر نہیں۔
دلیل نمبر ۱۲:
سیدنا عمر بن خطاب کے دورِ خلافت ۱۸ ہجری میں قحط سالی واقع ہوئی۔ اس سال کو عام الرمادہ کہتے ہیں۔ بنو مزینہ نے اپنے ایک آدمی (بلال ) سے کہا کہ ہم مرے جا رہے ہیں، کوئی بکری ذبح کیجیے۔ اس نے کہا : بکریوں میں کچھ نہیں رہا۔ اصرار بڑھا تو انہوں نے بکری ذبح کر دی۔ جب اس کی کھال اتاری تو نیچے سے سرخ ہڈی نکلی۔ یہ دیکھ کر اس آدمی نے یا محمدا کہا۔ رات ہوئی تو اس نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرما رہے ہیں : تمہیں زندگی مبارک ہو۔ عمر کے پاس جاؤ، اسے میری طرف سے سلام کہو اور یہ بھی کہو کہ اے عمر ! تم تو وعدوں کو خوب نبھانے والے ہو، میرا وعدہ یاد کرو۔ عمر ! دانائی سے کام لو۔ قبیلہ بنو مزینہ کا یہ شخص بیدار ہونے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آیا اور دربان سے کہا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اجازت طلب کرو۔ دربان نے آ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی تو وہ گھبرا گئے اور فرمایا : اسے میرے پاس لاؤ۔ جب اس شخص کو اندر بلایا گیا تو اس نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کرایا، منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا : تمہیں اس ذات کی قسم جس عمر نے تمہیں اسلام کی توفیق بخشی ! کیا تم نے مجھ میں کوئی کوتاہی دیکھی ہے؟ لوگ کہنے لگے : نہیں، لیکن ہوا کیا؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بلال کے خواب والا واقعہ سنایا۔ لوگ سمجھ گئے لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نہ سمجھ سکے۔ لوگوں نے انہیں بتایا کہ آپ نے نماز استسقاء کی ادائیگی میں تاخیر کی ہے۔ ہمارے ساتھ نماز استسقاء ادا کریں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اعلان سے لوگوں کو جمع کیا، کھڑے ہو کر مختصر خطبہ دیا، پھر مختصر دو رکعتیں ادا کیں، پھر بارش کے لیے دعا فرمائی“ (تاریخ طبری : 99/4، البدایہ والنھایہ لا بن كثير : 91/7)
تبصرہ :
یہ روایت موضوع (من گھڑت ) ہے، کیونکہ :
سیف بن عمرالکوفی راوی بالاتفاق ’’ضعیف ومتروک“ ہے۔
اس کا استاذ مبشر بن فضیل ’’مجہول“ ہے۔
امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مجھول بالنقل، إسناده لا يصح .
”یہ شخص روایت حدیث میں مجہول ہے، اس حدیث کی سند صحیح نہیں۔ “ (الضعفاء الكبير : 236/4 )
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لايدري من ھو؟
”نہ معلوم یہ کون ہے؟“ (ميزان الاعتدال : 434/3)
اس کے راوی جبیر بن صخر کی توثیق مطلوب ہے۔
شعیب بن ابراہیم کوفی ’’مجہول“ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت کو اکثر حنفی حضرات ہی اپنی دلیل میں پیش کرتے ہیں، حالانکہ ان کی پیش کردہ اس من گھڑت روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نماز استسقاء پڑھنے کا حکم دیا گیا بلکہ اسے دانائی و حکمت بتایا گیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس حکم نبوی کے مطابق باجماعت نماز استسقاء کی ادائیگی بھی کی۔ جبکہ حنفی حضرات کے مقلد امام ابوحنیفہ نماز استسقاء کو مسنون نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب ’’ہدایہ“ میں امام ابوحنیفہ کا قول یوں نقل کیا گیا ہے : ليس في الاستسقاء صلاة مسنونة في جماعة ….. ورسول الله استسقي، ولم تروعنه الصلاة . ”استسقاء میں باجماعت نماز پڑھناسنت نبوی نہیں۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش طلب کی تھی لیکن آپ سے اس موقع پر نماز پڑھنا مروی نہیں۔ “ (الھداية في شرح بداية المبتدي، كتاب الصلاة، باب الاستسقاء : 176/1)
حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باجماعت نماز استسقاء ادا کرنے کے بارے میں احادیث معروف ہیں۔ کتب حدیث میں کثرت کے ساتھ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز استسقاء اور اس کے طریقے کے بارے میں احادیث موجود ہیں۔ صرف صحاحِ ستہ سے چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں : (صحیح البخاری : 1012، سنن ابي داود 1161، سنن النسائي : 1505، سنن الترمذي : 556، سنن ابن ماجه : 1266)
فوت شدگان سے توسل والے من گھڑت عقیدے پر ایک من گھڑت روایت نے حنفی بھائیوں کو بھلا کیا فائدہ دیا؟ صرف یہ کہ باجماعت نماز استسقاء ان کے گلے پڑ گئی ! ! !
دلیل نمبر ۱۳:
جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کے ساتھ فوج کی تعداد ساٹھ ہزار تھی، جبکہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی۔ مقابلہ بہت شدید تھا۔ ایک وقت نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مسلمان مجاہدین کے پاؤں اکھڑنے لگے۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سپہ سالار تھے۔ انہوں نے یہ حالت دیکھی تو : ونادي بشعارھم يومئذ، وكان شعارھم يومئذ: يا محمداه! ”انہوں نے مسلمانوں کا نعرہ بلند کیا۔ اس دن مسلمانوں کا نعرہ یا محمداہ تھا۔“ (تاریخ طبری:181/2، البدایہ والنھایہ لا بن كثير:324/6)
تبصرہ:
یہ روایت موضوع (من گھڑت ) ہے، کیونکہ :
(1) اس میں سیف بن عمر کوفی راوی بالاتفاق ’’ضعیف و متروک“ موجود ہے۔
(2) شعیب بن ابراہیم کوفی ’’مجہول“ ہے۔ كما تمر
(3) ضحاک بن یربوع کی توثیق نہیں ملی۔
(4) اس کا باپ یربوع کیسا ہے؟ معلوم نہیں ہو سکا۔
(5) رجل من سحیم کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔
دلیل نمبر ۱۴:
سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے سیدنا کعب بن ضمرہ رضی اللہ عنہ کو ایک ہزار افراد کے ہمراہ حلب کا جائزہ لینے کے لیے روانہ کیا۔ جب وہ حلب کے قریب پہنچے تو یوقنا پانچ ہزار افراد کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ مسلمان جم کر لڑنے لگے۔ اتنے میں پیچھے چھپے ہوئے پانچ ہزار افراد کے لشکر نے حملہ کر دیا۔ اس خطرناک صورت حال نے مسلمانوں کو بےحد پریشان کر دیا۔ سیدنا کعب بن ضمرہ رضی اللہ عنہ نے جھنڈا تھامے ہوئے بلند آواز سے پکارا : يا محمد، يا محمد، يا نصر الله، انزل! ’’اےمحمد ! اےمحمد ! اے اللہ کی مدد، اتر آ۔“ ( فتوح الشام لمحمد بن عمر الواقدي:196/1،طبع مصر:1394)
تبصره:
یہ روایت سخت ترین ’’ضعیف“ ہے،
اس کا راوی محمد بن عمرالواقدی جمہور کے نزدیک ’’ضعیف، متروک اور کذاب“ ہے۔ اس کے بارے میں :
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه الجمھور.
’’اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ (مجمع الزوائد:255/3)
علامہ ابن ملقن رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وقد ضعفه الجمھور.
’’اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ (البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير:324/5)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک“ کہا ہے۔ (تقريب التھذيب:6175)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كتب الواقدي كذب.
’’واقدی کی کتابیں جھوٹ کا پلندا ہیں۔“ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:21/8)
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إنه عندي ممن يضع الحديث.
’’میرے نزدیک یہ جھوٹی احادیث گھڑنے والا ہے۔“ (الضعفاء الكبير للعقيلي:108/4، وسنده صحيح)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اسے ’’کذاب“ قرار دیا ہے۔ (الضعفاء الكبير للعقيلي:108/4، وسنده صحيح)
امام بخاری، امام ابو زرعہ، امام نسائی اور امام عقیلی رحمہم اللہ نے اسے ’’ متروک الحدیث“ کہا ہے، امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اور جمہور نے ’’ضعیف“ کہا ہے۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يروي أحاديث غير محفوظة والبلاء منه، ومتون أخبار الواقدي غير محفوظة، وھو بين الضعف.
”یہ غیر محفوظ احادیث بیان کرتا ہے اور یہ مصیبت اسی کی طرف سے ہے۔ واقدی کی احادیث کے متون غیر محفوظ ہیں۔ اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔“ (الكامل في ضعفاء الرجال:243/6 )
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والواقدي عنه أئمة أھل النقل ذاھب الحديث.
’’واقدی ائمہ محدثین کے ہاں ضعیف راوی ہے۔“ (تاريخ بغداد :37/1 )
دلیل نمبر ۱۵:
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی بہن نے کہا : اے بہت ہی تعریف کیے ہوئے ! امداد، امداد. اللہ تعالیٰ آپ پر رحمتیں نازل فرمائے اور آسمانی فرشتے دور بھیجیں۔ حسین میدان میں ہیں، خون میں نہائے ہوئے، اعضاء کٹے ہوئے۔ یامحمد ! امداد. آپ کی بیٹیاں حراست میں ہیں۔ آپ کی اولاد شہید کر دی گئی ہے۔ باد صبا ان پر مٹی اڑا رہی ہے۔ ( البدایہ والنھایہ لا بن كثير:193/8)
تبصرہ:
اس کی سند باطل اور جھوٹی ہے، کیونکہ :
(1) اس میں سفیان ثوری کی تدلیس ہے۔ سماع کی تصریح نہیں ملی۔
(2) مخبر (سند میں خبر دینے والا) نامعلوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کسی مجہول اور کذاب رافضی کی کارستانی ہے، جو بعض لوگوں کے ہاتھ لگ گئی ہے اور وہ اسے دین بنائے بیٹھے ہیں۔