وسیلہ بریلوی و دیوبندی علماء کی نظر میں
تحریر: غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب (1324۔1391 ھ) سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 89 کے تحت لکھتے ہیں :”معلوم ہوا کہ حضور کے توسل سے دعائیں مانگنا بڑی پرانی سنت ہے اور ان کے وسیلے کا منکر یہود و نصاریٰ سے بدتر ہے۔ اور حضور کے وسیلے سے پہلے ہی سے خلق کی حاجت روائی ہوتی تھی۔“ (تفسیر نور العرفان،ص:21)اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفتی صاحب خود اہل کتاب کی رَوَش پر چل نکلے ہیں اور اپنے باطل اور فاسد نظریات کے دفاع میں قرآن مجید میں تحریف معنوی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے بارے میں انہوں نے وہ بات کہہ دی ہے جو سلف میں سے کسی نے نہیں کہی۔ اصل بیان یہ تھا کہ یہود جو اہل کتاب تھے، دو قبیلوں اوس اور خزرج جو اہل کتاب نہیں تھے، سے لڑتے تھے۔ یہود کے علم میں یہ بات تھی کہ عنقریب خاتم النبييں نبی مبعوث ہونے والے ہیں۔ غلبہ اس نبی کا مقدر ہو گا۔ اس بنا پر یہودی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرفداری ظاہر کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہم اس نبی پر ایمان لائیں گے، اس کی پیروی کریں گے اور اس کی معیت میں مشرکین سے لڑائی کر کے ان پر غلبہ پائیں گے۔ لہٰذا ہمیں ان مشرکوں، یعنی اوس اور خزرج پر غلبہ اور فتح عطا کی جائے گی۔

جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور قرآن کریم نازل ہوا تو یہودی اپنی بات سے پھر گئے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر کیا۔ یوں ان پر پھٹکار پڑی اور وہ کافر بنے۔ اتنی سی بات مفتی صاحب کی سمجھ میں نہیں آ سکی اور انہوں نے تفسیر میں اپنی طرف سے وسیلے کا مسئلہ گھسیڑ دیا ہے۔ کسی صحابی یا تابعی یا کسی ثقہ امام سے اس آیت کریمہ سے ایسا استنباط کرنا ثابت نہیں۔ مفتی صاحب کی بات کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ صحابہ کرام اور ائمہ عظام میں سے کوئی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے وسیلے کا قائل نہیں تھا۔ درحقیقت یہی لوگ، یعنی اسلاف امت ہی قرآن و حدیث کے مطالب و مفاہیم سے بخوبی واقف تھے۔

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661۔728ھ) نے کیا خوب لکھا ہے:
فوصف اليهود بأنهم كانوا يعرفون الحق قبل ظهور الناطق به، والداعي إليه، فلما جاءهم الناطق به من غير طائفة يهوونها لم ينقادوا له، وأنهم لا يقبلون الحق إلا من الطائفة التي هم منتسبون إليها، مع أنهم لا يتبعون ما لزمهم في اعتقادهم، وهذا يبتلى به كثير من المنتسبين إلى طائفة معينة في العلم، أو الدين، من المتفقهة، أو المتصوفة أو غيرهم، أو إلى رئيس معظم عندهم في الدين – غير النبي صلى الله عليه وسلم – فإنهم لا يقبلون من الدين رأيا ورواية إلا ما جاءت به طائفتهم، ثم إنهم لا يعلمون ما توجبه طائفتهم، مع أن دين الإسلام يوجب اتباع الحق مطلقا: رواية ورأيا من غير تعيين شخص أو طائفة – غير الرسول صلى الله عليه وسلم
”اللہ تعالیٰ نے یہود کے بارے میں بیان فرمایا ہے کہ وہ حق کو اس وقت سے پہچانتے تھے جب ابھی تک حق کا ناطق اور اس کی طرف دعوت دینے والا (پیغمبر) پیدا نہیں ہوا تھا۔ جب ان کے پاس حق کا داعی ایسے گروہ سے آ گیا جسے وہ پسند نہیں کرتے تھے تو انہوں نے اس کی پیروی نہ کی، پھر وہ اپنے ضروری اعتقادات کو تسلیم کرنے سے بھی انکاری ہو گئے تھے۔ تصوف اور فقہ کے کسی معین گروہ یا دینی حوالے سے کسی قابل تعظیم امتی کی طرف منسوب ہونے والے بہت سے لوگ اسی مصیبت کا شکار ہیں۔ وہ دینی معاملے میں وہی رائے اور روایت قبول کرتے ہیں، جو ان کے گروہ کی طرف سے آئے، حالانکہ ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے گروہ کی دلیل کیا ہے۔ اس کے برعکس دین اسلام حق کی مطلق اتباع کو فرض قرار دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بھی معین شخص یا گروہ کی رائے یا روایت کو اتباع کے لیے خاص نہیں کرتا۔“ (اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم:88،89/1)

اب اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ایک روایت ملاحظہ فرمائیں۔
حدثني أشياخ منا، قالوا : لم يكن أحد من العرب أعلم بشأن رسول الله صلى الله عليه وسلم منا، كان معنا يهود، وكانوا أهل كتاب، وكنا أصحاب وثن، فكنا إذا بلغنا منهم ما يكرهون، قالوا : إن نبيا مبعوثاً الآن، قد أظل زمانه، نتبعه، فنقتلكم معه قتل عاد وإرم، فلما بعث الله رسوله اتبعناه وكفروا به، ففينا، والله، وفيهم أنزل الله عز وجل : ﴿وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا ….﴾
(البقرة89:2)

عاصم بن عمر بن قتاہ انصاری مدنی تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
”ہمارے اساتذہ (صحابہ کرام) نے ہمیں بتایا کہ عرب میں سے ہم سے بڑھ کر کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے کو نہیں جانتا تھا۔ ہمارے ساتھ یہود رہتے تھے۔ وہ اہل کتاب تھے اور ہم بت پرست۔ جب انہیں ہم سے کوئی تکلیف پہنچتی تو وہ کہتے تھے: ایک نبی جس کی بعثت کا وقت ہوا چاہتا ہے، ہم اس کے ساتھ مل کر تم سے لڑائی کریں گے اور تمہیں یوں ہلاک کر دیں گے، جیسے عاد اور ارم ہلاک ہوئے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مبعوث فرمایا تو ہم نے آپ کی اتباع کر لی اور انہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا۔ اللہ کی قسم، ہمارے اور یہود کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ : ﴿وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا….﴾ اور یہود اس سے پہلے کافروں پر فتح کی دعا کیا کرتے تھے۔ جب ان کے پاس وہ چیز آ گئی، جسے وہ خوب پہچانتے تھے، تو انہوں نے اس کے ساتھ کفر کیا۔۔۔“ (السيرة لابن إسحاق، ص:84، دلائل النبوة للبيھقي:75/2،وسنده حسن)

سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 118 کی تشریح میں مفتی نعیمی صاحب مزید لکھتے ہیں :
”بغیر وسيله پیغمبر، رب تک پہنچنے کی خواہش کرنا کفار کا کام ہے۔ جب رب ہم تک بغیر وسيله نبی نہیں پہنچتا، حالانکہ وہ غنی ہے تو ہم اس تک بغیر وسیلہ کیسے پہنچیں، حالانکہ ہم محتاج ہیں۔“ (تفسیر نور العرفان،ص:27)

مفتی صاحب کا کوئی معتقد ہی بتائے کہ قرآن کریم کی اس آیت سے وہ کون سا وسیلہ ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟ بات ہو رہی ہے دعا میں کسی کی ذات کا وسیلہ دینے کی۔ جہاں تک دین اور شریعت کا تعلق ہے تو وہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے نبی ہی کے ذریعے دی ہے لیکن اسی شریعت میں ہماری ساری عبادات کے مفصل طریقے بیان کر دئیے ہیں۔ دعا ایک عبادت بلکہ عبادات کا مغز ہے۔ کیا قرآن و سنت سے دعا والی عبادت میں کسی کی ذات کے وسیلے کا ثبوت ملتا ہے؟ اگر دعا میں کسی کی ذات کو بطور وسیلہ ذکر کرنے کا اسلام میں کہیں نام و نشان ملتا ہوتا تو مفتی صاحب کو اتنا تکلف نہ کرنا پڑتا۔ اسلاف امت صحابہ و تابعین اور ائمہ دین میں سے کسی نے اس آیت کریمہ سے وسیلہ بالذات کا استنباط نہیں کیا، نہ اسلاف میں سے کوئی اس کا قائل رہا۔ حیرانی تو اس بات پر ہے کہ جو لوگ قرآن و سنت کے مطلب و مفہوم کو سمجھ نہ پانے کا بہانہ کر کے اتباع رسول چھوڑتے ہوئے تقلید شخصی کا پٹہ گلے میں پہنتے ہیں، وہی لوگ کس منہ سے مجتہد بن کر اپنی خرافات کو ثابت کرنے کے لیے قرآن و سنت کے نئے نئے مفاہیم کا استنباط کرتے ہیں ؟

اسی ليے اصولی نے مفتی صاحب کو حواس باختہ كر دیا ہے۔ قارئین انہی کی ایک اور عبارت ملاحظہ فرمائیں۔

وہ لکھتے ہیں :
”معلوم ہوا کہ نبی کے توسل کا فرعون بھی قائل تھا۔ جو اس وسیلہ کا منکر ہے، وہ فرعون سے زیادہ گمراہ ہے۔“(تفسیر نور العرفان ،ص:264)

اس حرکت کو کیا نام دیں کہ مفتی صاحب ایک ہی کتاب میں کسی جگہ لکھتے ہیں کہ پیغمبر کا وسیلہ نہ لینا کافروں کا کام ہے (مفتی صاحب کی گزشتہ عبارت اس بارے میں صریح ہے) اور اسی کتاب میں دوسری جگہ یہ فرما رہے ہیں کہ کافروں کا سردار فرعون نبی کے وسیلے کا قائل تھا۔ اب دونوں میں سے ایک ہی بات درست ہو سکتی ہے۔ اگر کفار نبی کے وسیلے کے منکر تھے تو مفتی صاحب کے نزدیک فرعون کافر نہ رہا اور اگر فرعون کافر ہے تو معلوم ہوا کہ نبی کی ذات کا وسیلہ پکڑنا کفار کا کام ہے۔ بریلوی بھائی آج بھی کافروں کے اس عمل کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں !!!

مفتی صاحب سوره آلِ عمران کی آیت نمبر 193 کے تحت لکھتے ہیں :
”دوسرے یہ کہ اپنے ایمان کے وسیلہ سے دعا کرنی چاہیے۔ جب اپنے ایمان کا وسیلہ بنانا درست ہے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ پکڑنا بھی بالکل صحیح ہے۔“ (تفسیر نور العرفان،ص:119)

ایمان تو عمل کا نام ہے۔ اپنے اعمال کے وسیلے سے دعا کرنا نصوص شرعیہ کی روشنی میں مشروع اور جائز ہے۔ ایمان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر قیاس کرنا مفتی صاحب کا باطل قیاس ہے۔ عبادات اسی طرح بجا لائی جائیں گی جس طرح شریعت نے رہنمائی فرمائی ہے۔ اپنی رائے اور عقل سے عبادات کے نئے نئے طریقے گھڑنا تو بدعت ہے۔ عبادت کا ایسا طریقہ جو شریعت نے نہیں بتایا، بدعت ہی کہلائے گا۔ پھر اگر ایمان کے وسیلے کی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا وسیلہ پیش کرنا بھی جائز ہوتا تو صحابہ کرام اور ائمہ دین ضرور ایسا کرتے۔ سچا دین صحابہ کرام اور ائمہ دین ہی کا تھا۔
معلوم ہوا کہ شیعہ، حنفی، دیوبندی اور بریلوی چاروں فرقے ممنوع، مکروہ اور بدعی و شر کی توسل کے قائل و فاعل ہیں۔

سلف صالحین کا توسل اور جناب کشمیری کا اعتراف

سلف صالحین کے نزدیک جو وسیلہ مشروع اور جائز ہے، اس کے متعلق دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب (1292۔1352 ھ) فرماتے ہیں:
واعلم أن التوسل بين السلف – واعلم أن التوسل بين لسلف لم يكن كما هو المعهود فإنهم إذا كانوا يريدون أن يتوسلوا بأحد، كانوا يذهبون بمن يتوسلون به أيضا معهم، ليدعو لهم
”آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ اسلاف امت میں توسل کا وہ طریقہ موجود نہیں تھا جو ہمارے ہاں رائج ہے۔ سلف تو جب کسی کا وسیلہ لینا چاہتے تو اسے اپنے ساتھ لے جاتے تاکہ وہ ان کے لیے دعا کر دے۔“ (فيض الباري علي صحيح البخاري:434/3)

الحمدللہ ! اہل حدیث، سلف کے عقیدہ و منهج اور مذہب پر قائم ہیں۔ ہمارے نزدیک بھی کسی نیک شخص سے توسل کی یہی صورت درست ہے کہ اس سے دعا کرائی جائے اور اسی وجہ سے ہم فوت شدگان سے توسل کے قائل نہیں۔ کتاب و سنت اور اجماع امت اس پر شاہد ہیں۔ جناب کشمیری صاحب بھی اس بات کے معترف ہیں کہ سلف صرف نیک لوگوں کی دعا کے وسیلے کے قائل تھے۔ کشمیری صاحب کا یہ اعتراف اہل حدیث کے اہل حق ہونے کی واضح گواہی ہے۔

جناب انور شاہ کشمیری صاحب اپنے بدعی توسل کے بارے میں لکھتے ہیں :
أما التوسل بأسماء الصالحين كما هو المتعارف في زماننا، بحيث لا يكون للمتوسلين بهم علم بتوسلنا، بل لا تشترط فيه حياتهم أيضاً، وإنما يتوسل بذكر أسمائهم فحسب، زعماً منهم أن لهم وجاهة عند الله وقبولاً، فلا يضيعهم بذكر أسمائهم، فذلك أمر لا أحب أن أقتحم فيه، فلا أدعي ثبوته عن السلف ولا أنكر.
”سلف صالحین کے ناموں کا وسیلہ دینا، جیسا کہ ہمارے زمانے میں رائج ہے، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جن نیک لوگوں کا وسیلہ ہم دے رہے ہوتے ہیں، ان کو ہمارے اس عمل کا علم تک نہیں ہوتا، بلکہ ان کا زندہ ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا۔ صرف ان کے نام کا وسیلہ دیا جاتا ہے اور عقیدہ یہ رکھا جاتا ہے کہ ان نیک لوگوں کو اللہ کے ہاں ایک مقام اور قبولیت حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ ان نیک لوگوں کا نام لینے پر انہیں نامراد نہیں کرے گا۔ یہ ایسا معاملہ ہے کہ میں اس میں ٹانگ اڑانا پسند نہیں کرتا۔ نہ میں اس وسیلے سے انکار کرتا ہوں نہ سلف سے اس کے ثابت ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں۔ “ (فيض الباري:424/3)
یعنی کشمیری صاحب کو اعتراف ہے کہ فوت شدہ بزرگوں کے وسیلے سے دعا کرنا سلف صالحین سے ثابت نہیں۔ لیکن ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جو وسیلہ سلف سے ثابت نہیں، میں اس کا انکار بھی نہیں کرتا۔ کتنی حیرانی کی بات ہے کہ سلف سے عدم ثبوت کا اقرار کرنے کے باوجود کشمیری صاحب متاخرین متکلمین کا وضع کردہ بدعی وسیلہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنی مکمل بےبسی کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو قبول کرنے اور باطل کو ترک کرنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے۔

صحیح بخاری میں مذکور صحابہ کرام کی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے توسل والی حدیث کی شرح میں کشمیری صاحب لکھتے ہیں :
قلت : وهذا توسل فعلي، لأنه كان يقول له بعد ذلك : قم يا عباس ! فاستسق، فكان يستسقي لهم، فلم يثبت منه التوسل القولي، أي الاستسقاء بأسماء الصالحين فقط، بدون شركتهم، أقول : وعند الترمذي أن النبي صلي الله عليه وسلم علم أعرابيا ھذه الكلمات، وكان أعمیٰ: اللھم! إني أتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة ……… إلي قوله: اللھم ! فشفعه في، فثبت منه التوسل القولي أيضا، وحينئذ إنكار الحافظ ابن تيمية تطاول.
”میں کہتا ہوں کہ اس حدیث میں مذکورہ وسیلہ، فعلی وسیلہ ہے، کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس کے بعد سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے عرض کرتے: اے عباس ! کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا فرمائیے۔ اس حدیث سے قولی وسیلہ ثابت نہیں ہوتا، یعنی نیک لوگوں کی دعا میں شریک ہوئے بغیر صرف ان کے نام کا وسیلہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا اس سے ثابت نہیں ہوتا۔ میں کہتا ہوں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینا اعرابی صحابی کو یہ کلمات سکھائے: اے اللہ ! میں تیری طرف تیرے نبی رحمت کے وسیلے سے توجہ کرتا ہوں۔۔۔ اے اللہ ! اپنے نبی کی سفارش میرے بارے میں قبول فرما۔۔۔ اس حدیث سے قولی توسل بھی ثابت ہو گیا ہے، لہٰذا حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف سے اس کا انکار تکلف ہے۔“ (فيض الباري:68/4)

جناب کشمیری صاحب کی پریشانی کا اندازہ کریں کہ وہ ایک طرف اس بات کے اقراری بھی ہیں کہ سلف صالحین سے نیک لوگوں کے ناموں کا وسیلہ ثابت نہیں، لیکن دوسری طرف حدیث کو تروڑ مروڑ کر اس وسیلے کو ثابت کرنے پر بھی تلے ہوئے ہیں۔ کتاب و سنت کی کوئی ایسی نص نہیں جس پر سلف صالحین نے عمل نہ کیا ہو۔ اگر کسی حدیث سے دعا میں اللہ تعالیٰ کو فوت شدہ نیک بزرگوں کے ناموں کا وسیلہ دینا ثابت ہوتا تو سلف صالحین اسی طرح بھرپور انداز سے اس پر عمل کرتے جس طرح وسیلے کی جائز صورتوں پر ان کا عمل کرنا ثابت ہے۔

رہی بات جامع ترمذی والی حدیث سے کشمیری صاحب کے استنباط کی، تو عرض ہے کہ اس حدیث سے فوت شدہ نیک لوگوں کے ناموں کا واسطہ دینا ثابت نہیں ہوتا۔ اس حدیث کے الفاظ ہی اس کی نفی کر رہے ہیں۔ اس حدیث میں صاف مذکور ہے کہ دعا کے وقت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس اعرابی صحابی کے پاس موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کے لیے دعا بھی کی تھی۔ اسی لیے تو آپ نے اسے دعا کے یہ الفاظ بھی سکھائے کہ اے اللہ ! میرے بارے میں اپنے نبی کی سفارش قبول فرما۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کے لیے دعا کی ہی نہیں تھی تو ان الفاظ کا کیا معنی؟ معلوم ہوا کہ اس حدیث سے بھی زندہ نیک شخص کی دعا کا وسیلہ ہی ثابت ہوتا ہے۔ کشمیری صاحب اور ان کے ہمنوا حدیث کے معنی میں گڑبڑ کر کے اپنے بدعی وسیلے کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی لیے انہیں یہ ماننا پڑتا ہےکہ سلف سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ملے بھی کیسے کہ سلف تو کتاب و سنت پر عمل کرنے والے تھے۔

کیا اب بھی ثابت نہیں ہوا کہ اہل حدیث سلف صالحین کے عقیدہ و منہج پر قائم ہیں ؟ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مقلدین حضرات اپنے لیے عبادات کے نئے نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں اور دعوئ تقلید کے باوجود ان بدعی طریقوں کے ثبوت پر قرآن و حدیث سے دلائل تراشنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سلف کے پیروکار تھے، اسی لیے انہوں نے نیک لوگوں کے ناموں کے وسیلے کو ناجائز قرار دیا۔ اس میں ان کا کیا قصور؟ انہوں نے تو لکھا ہے کہ :
وحديث الأعمیٰ، لا حجة لھم فيه، فإنه صريح في أنه إنما توسل بدعاء النبي صلی الله عليه وسلم وشفاعته.
”نابینا صحابی والی حدیث میں ان لوگوں کے حق میں کوئی دلیل نہیں کیونکہ یہ حدیث صاف صاف بتا رہی ہے کہ صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور شفاعت کا وسیلہ اختیار کیا تھا۔“ (قاعدة جليلة في التوسل،ص:64)

یہ تو بات تھی نابینا صحابی والی روایت کی، جبکہ صحیح بخاری کی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے توسل والی حدیث کے بارے میں کشمیری صاحب نے خود اقرار کیا ہے کہ اس سے ان کا موجودہ طریقہ توسل ثابت نہیں ہوتا۔

ان کی ایک مزید عبارت ملاحظہ فرمائیں :
قوله: اللھم! إنا كنا نتوسل إليك بنبينا صلى الله عليه وسلم، ليس فيه التوسل المعھود الذي يكون بالغائب حتي قد لا يكون به شعور أصلا، فيه توسل السلف، وھو أن يقدم رجلا ذاوجاھة عند الله تعالىٰ ويأمره أيدعو لھم، ثم يحيل عليه في دعائه، كما فعل بالعباس رضي الله عنه عم النبي صلى الله عليه وسلم، ولو كان فيه توسل المتأخرين لما احتاجوا إلي إذھاب العباس رضي الله عنه معھم، ولكفي لھم التوسل بنبيھم بعد وفاته أيضا، أو بالعباس رضى الله عنه مع عدم شھوده معھم. وھذا النحو جائز عند المتأخرين ومنع منه الحافظ ابن تيمية رحمه الله تعالىٰ، وإني متردد فيه، لأنه أتى بعبارة عن الإمام من (تجريد القدوري) أن الإقسام علي الله بغير أسمائه لا يجوز، فتسك بنفي الإقسام على نفي التوسل، فإن كان التوسل إقساما فالمسألة فيه كما ذھب إليھا ابن تيمية رحمه الله تعالىٰ، وإن لم يكن إقساما يبقي جائزا۔
”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بارش کے موقع پر دعا کرتے تھے کہ اے اللہ ! ہم پہلے تجھے اپنے نبی کا وسیلہ پیش کرتے تھے۔۔۔ ان الفاظ میں اس رائج طریقہ توسل کا ذکر نہیں جس میں کسی غائب شخص کا وسیلہ دیا جاتا ہے جسے اس بات کا شعور بھی نہیں ہوتا کہ کوئی اس کا وسیلہ پکڑ رہا ہے۔ اس حدیث میں تو سلف صالحین کے طریقہ توسل کا اثبات ہے۔ سلف کا طریقہ یہ تھا کہ وہ کسی مقرت الٰہی شخص کو آگے کرتے اور عرض کرتے کہ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں۔ پھر وہ اس سفارش کا حوالہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے۔ جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا۔ اگر اس حدیث میں بعد والے لوگوں کے وضع کردہ طریقہ توسل کا ذکر ہوتا تو پھر صحابہ کرام کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے جانے کی ضرورت نہ پڑتی اور ان کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ ہی کا وسیلہ کافی ہوتا یا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی عدم موجودگی میں ان کے نام کا وسیلہ دے دیا جاتا۔ (فيض الباري:379/2)

وہ کہتے ہیں (بعض ) متاخرین کے نزدیک کسی نیک بزرگ کی ذات کا وسیلہ دینا جائز ہے لیکن حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کی نفی کی ہے۔ میں اس بارے میں تردّد کا شکار ہوں کیونکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تجرید القدروی سے امام صاحب کی ایک عبارت ذکر کی ہے کہ اللہ کے ناموں کے علاوہ کسی اور نام سے اللہ پر اقسام جائز نہیں۔ یعنی انہوں نے اقسام کی نفی سے توسل کی نفی کی دلیل لی ہے۔ اگر توسل اور اقسام ایک ہی چیز ہیں تو پھر ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بات حق ہے اور اگر توسل و اقسام میں تفاوت ہے تو پھر توسل جائز رہے گا۔“(فيض الباري:379/2)

یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین میں سے کسی نے کبھی بھی اللہ تعالیٰ کو نیک لوگوں کی ذات یا ان کے ناموں کا وسیلہ نہیں دیا۔ یہ طریقہ کار تو بعد والوں کی ایجاد ہے۔ اب رہی اقسام علی اللہ بغیر اسمائہ کی بات کہ امام ابوحنیفہ نےاس کی نفی کی ہے اور اس نفی سے ذات کے توسل کی نفی ہوتی ہے، تو اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حق بجانب ہیں۔ البتہ اس بحث کو سمجھنا اقسام علی اللہ کے سمجھنے پر موقوف ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے