سوال
علمائے دین سے دریافت کیا جاتا ہے کہ ایک شخص بنام مصری کا انتقال ہوگیا، جس نے ورثاء چھوڑے۔ ورثاء میں شامل ہیں:
◄ چھ بیٹے: سائیں بخش، جان محمد، سنجر، کمال، رستم علی، عادل
◄ تین بیٹیاں
مصری خان کی ملکیت مشترکہ تھی، جو عارضی طور پر بیٹوں کے درمیان تھوڑی تھوڑی تقسیم کی گئی تھی۔ بعد ازاں مزید جائیداد وجود میں آئی، جو سائیں بخش کی نگرانی و قبضے میں رہی۔ یہ جائیداد دوسرے بھائیوں میں تقسیم نہ کی گئی تھی کہ اتنے میں سائیں بخش کا انتقال ہوگیا۔ اب سائیں بخش کے بیٹے باقی چچا زاد بھائیوں کو جائیداد دینے سے انکاری ہیں۔ شریعتِ محمدی کے مطابق اس کا کیا حکم ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ کسی بھی میت کی جائیداد کی تقسیم سے قبل درج ذیل امور پورے کیے جائیں گے:
➊ میت کے مال سے کفن و دفن کے اخراجات نکالے جائیں۔
➋ اس کے بعد اگر کوئی قرض ہے تو اسے ادا کیا جائے۔
➌ پھر باقی جائیداد (منقولہ یا غیر منقولہ) کو ایک اکائی یعنی "ایک روپیہ” مان کر شرعی اصول کے مطابق ورثاء میں تقسیم کیا جائے۔
مصری خان کی وراثت کی تقسیم
◈ مصری خان کی کل جائیداد = 1 روپیہ
ورثاء:
◄ 6 بیٹے
◄ 3 بیٹیاں
کل حصے: 15
◄ ہر بیٹے کو 2 حصے
◄ ہر بیٹی کو 1 حصہ
قرآنی دلیل
﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾
…النساء
جدید اعشاری نظام کے مطابق تقسیم
◈ کل جائیداد = 100 حصے
◄ 6 بیٹے: 79.999 (فی کس 13.333)
◄ 3 بیٹیاں: 19.999 (فی کس 6.666)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب