سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص بنام حاجن فوت ہوگیا، جس کے ورثاء میں ایک ماں، دو بہنیں، ایک بھائی اور دو بیویاں شامل ہیں۔ شرع محمدی کے مطابق ان میں سے ہر ایک کا حصہ کتنا ہوگا؟ اس کے بعد مسمات رانی فوت ہوگئیں، جنہیں باقی تمام حصے داروں نے اپنا اپنا حصہ ہبہ کردیا تھا۔ پھر مسمات رانی نے وفات پائی تو انہوں نے اپنی میراث میں 3 بیٹیاں اور ایک شوہر وارث چھوڑا۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ اصول ہمیشہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ فوت ہونے والے کی ملکیت میں سے سب سے پہلے کفن و دفن کا خرچ نکالا جائے گا۔
✿ دوسرے نمبر پر اگر مرحوم پر کوئی قرض ہے تو اسے ادا کیا جائے گا۔
✿ تیسرے نمبر پر اگر وصیت کی گئی ہے تو کل ترکہ کے ایک تہائی حصے تک اس وصیت کو پورا کیا جائے گا۔
✿ اس کے بعد جو ترکہ بچے گا، خواہ وہ منقولہ جائیداد ہو یا غیر منقولہ، اسے تقسیم کیا جائے گا۔
مرحوم حاجن کی میراث کی تقسیم
فرض کرتے ہیں کہ کل ترکہ ایک روپیہ (0-1) ہے تو تقسیم اس طرح ہوگی:
◈ ماں کو: 2 آنے 8 پیسے
◈ دو بیویوں کو: 4 آنے
◈ دو بہنوں کو (مشترکہ طور پر): 4 آنے 8 پیسے
◈ ایک بھائی کو: 4 آنے 8 پیسے
نوٹ
چونکہ مسمات رانی کو تمام ورثاء نے اپنا اپنا حصہ ہبہ کردیا تھا اور کافی عرصہ سے وہ اس پر قابض بھی تھیں، اس لیے اس کی مکمل مالک مسمات رانی ہی قرار پائیں گی۔
اب جب مسمات رانی کا انتقال ہوا تو ان کی ساری ملکیت کو بھی ایک روپیہ فرض کرکے تقسیم کیا جائے گا۔
مسمات رانی کی میراث کی تقسیم
◈ شوہر (حاجن جمن) کو: 4 آنے
◈ تین بیٹیوں (صالحان، قابل اور کاملہ) کو مشترکہ طور پر: 10 آنے 16 پیسے
موجودہ اعشاری نظام میں تقسیم
میت حاجن کا ترکہ (100 روپے فرض کرتے ہوئے):
◈ ماں: 1/6 = 16.666 روپے
◈ دو بہنیں (عصبہ): 29.17 روپے
◈ ایک بھائی (عصبہ): 29.17 روپے
◈ دو بیویاں: 1/4 = 25 روپے
میت مسمات رانی کا ترکہ (100 روپے فرض کرتے ہوئے):
◈ شوہر: 1/4 = 25 روپے
◈ تین بیٹیاں: 2/3 = 75 روپے
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب