وراثت کی تقسیم: خاوند اور بہنوں میں جائیداد کی شرعی تقسیم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 612

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ بنام حاجانی جئندل عرف نسیم تقریباً ایک مہینہ قبل وفات پا گئیں۔ مرحومہ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔

ان کی جائیداد میں:

◄ تقریباً 39-36 ایکڑ زرعی زمین شامل ہے۔
◄ ایک مکان وغیرہ بھی شہر میں موجود ہے۔

مرحومہ نے پیچھے درج ذیل ورثاء چھوڑے ہیں:

◄ دو سگی بہنیں
◄ ایک خاوند

شریعت محمدی کے مطابق وضاحت فرمائیں کہ مرحومہ کی مذکورہ جائیداد ان ورثاء کے درمیان کس طرح اور کتنے حصوں میں تقسیم ہوگی؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے پہلے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ:

➊ میت کی ملکیت سے سب سے پہلے اس کے کفن و دفن کے اخراجات نکالے جائیں۔
➋ اس کے بعد اگر کوئی قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے۔
➌ پھر اگر کوئی وصیت کی ہے تو اسے کل مال کے تیسرے حصے (1/3) سے پورا کیا جائے۔
➍ ان سب امور کی ادائیگی کے بعد باقی بچی ہوئی جائیداد کو تقسیم کیا جائے گا۔

جائیداد کی تقسیم

مرحومہ جئندل عرف نسیم کی جملہ ملکیت کو بطور مثال 1 روپیہ تصور کر کے تقسیم کیا جائے گا۔

پرانے حساب (آنہ) کے مطابق:

◄ خاوند = 8 آنے
◄ بہن = 4 آنے
◄ بہن = 4 آنے

جدید اعشاری نظام کے مطابق (کل 100 حصے):

◄ خاوند = 1/250 حصے
◄ دو بہنیں = 3/225 حصے فی کس

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے