وراثت کی تقسیم: بیٹا، بیٹی اور بیوی کے حصے کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 593

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ:

جان محمد فوت ہوگیا، اس کے وارث تھے:

◄ ایک بیٹا
◄ ایک بیٹی
◄ ایک بیوی

اس کے بعد وہ بیٹا بھی فوت ہوگیا، اس کے وارث تھے:

◄ پانچ بیٹے
◄ ایک بیوی
◄ دو بیٹیاں

پوچھا گیا کہ شریعت محمدی ﷺ کے مطابق ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کسی بھی مرحوم کی ملکیت میں سے تقسیم کا صحیح طریقہ درج ذیل ہے:

سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کا خرچ نکالا جائے گا۔
دوسرے نمبر پر اگر مرحوم پر کوئی قرض ہے تو اسے ادا کیا جائے گا۔
تیسرے نمبر پر اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اسے مال کے تیسرے حصے تک سے ادا کیا جائے گا۔
➍ اس کے بعد باقی ماندہ مال کو "ایک روپیہ” فرض کر کے شرعی اصول کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

پہلا مرحوم: جان محمد

کل ملکیت: 1 روپیہ

◄ بیوی = 2 آنے
◄ بیٹا = 9 آنے 4 پائی
◄ بیٹی = 4 آنے 8 پائی

دوسرا مرحوم: دھنی بخش (جان محمد کا بیٹا)

کل ملکیت: 1 روپیہ

◄ بیوی = 2 آنے
◄ پانچ بیٹے = ہر ایک کو 2 آنے 4 پائی
◄ دو بیٹیاں = ہر ایک کو 1 آنہ 2 پائی

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے