وراثت کی تقسیم: بیوی، شوہر اور اولاد کے حصے شرعی اصولوں کے مطابق
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 644

سوال

علماء کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ:
بنام علی بخش فوت ہوگیا۔ اس کے ورثاء میں شامل ہیں:

◄ ایک بیوی
◄ ایک بیٹا: حمزہ
◄ تین بیٹیاں: نور خاتون، مریم، رحمت

اس کے بعد علی بخش کی بیوی کا انتقال ہوا۔ اس کے ورثاء میں شامل ہیں:

◄ حقیقی بھائی: حمزہ خان
◄ اخیافی بھائی: صالح
◄ حقیقی بہن: نور خاتون

شریعت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ میت کے ترکہ سے سب سے پہلے کفن و دفن کے اخراجات نکالے جائیں گے، پھر قرض ادا کیا جائے گا، اس کے بعد اگر کوئی وصیت ہو تو وہ ایک تہائی مال سے پوری کی جائے گی۔ اس سب کے بعد باقی جائیداد، خواہ منقول ہو یا غیر منقول، کو تقسیم کیا جائے گا۔

پہلی تقسیم: (فوت شدہ علی بخش کی جائیداد)

کل جائیداد = ایک روپیہ

ورثاء کے حصے:
◄ بیوی = ۲ آنے
◄ بیٹا حمزہ = ۵ آنے، ۵/۱ پائی
◄ تین بیٹیاں (نور خاتون، مریم، رحمت) = ۲ آنے ۵/۳/۹ پائی فی کس

دوسری تقسیم: (فوت شدہ علی بخش کی بیوی کی جائیداد)

بیوی کی جائیداد کو ایک روپیہ مانا گیا۔

ورثاء کے حصے:
◄ بیٹا حمزہ = ۴ پائی ۵ آنے
◄ بیٹا صالح = ۴ پائی ۵ آنے
◄ بیٹی رحمت = ۸ پائی، ۲ آنے
◄ بیٹی نور خاتون = ۸ پائی، ۲ آنے

تیسری تقسیم: (فوت شدہ رحمت کی جائیداد)

رحمت کی کل ملکیت کو ایک روپیہ مانا گیا۔

ورثاء کے حصے:
◄ حقیقی بھائی = ۱۰ آنے ۸ پائی
◄ اخیافی بھائی = محروم
◄ حقیقی بہن = ۵ آنے ۴ پائی

جدید طریقہ تقسیم (اعشاریہ فیصد نظام)

میت: علی بخش

کل ملکیت = ۱۰۰

◄ بیوی = ۱۲.۵% (1/8)
◄ بیٹا حمزہ = ۳۵% (عصبہ)
◄ تین بیٹیاں (عصبہ) = ۵۲.۵% (فی کس ۱۷.۵%)

میت: زوجہ علی بخش

کل ملکیت = ۱۲.۵

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے