وراثت کی تقسیم: بیوی، دو بیٹیاں، باپ اور بہن کے حصے شریعت کے مطابق
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 659

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک حاجی کا انتقال ہوگیا اور اس نے ورثاء چھوڑے: ایک بیوی، دو بیٹیاں، باپ اور بہن۔ وضاحت فرمائیں کہ شریعتِ محمدی کے مطابق ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ میت کی ملکیت میں سے:

کفن و دفن کا خرچ نکالا جائے گا۔
➋ اس کے بعد اگر میت پر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کیا جائے گا۔
➌ اس کے بعد اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو کل مال کے تیسرے حصے تک اس پر عمل کیا جائے گا۔
➍ اس کے بعد باقی ملکیت خواہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ، اسے ایک روپیہ فرض کر کے تقسیم یوں ہوگی:

تقسیم وراثت (قدیم حسابی نظام کے مطابق)

کل ترکہ: 1 روپیہ

حصے:

◈ بیوی: 2 آنے
◈ دو بیٹیاں (مشترکہ): 10 آنے 8 پائیاں
◈ باپ: 3 آنے 4 پائیاں
◈ بہن: محروم

قرآنی دلائل

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾ (النساء)

﴿فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَ‌كَ﴾ (النساء)

حدیث مبارکہ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقى فلأولى رجل ذكر.))
\[صحیح البخاری، کتاب الفرائض، باب میراث ابن الابن إذا لم يكن ابن، رقم الحدیث: 6735]
\[صحیح مسلم، کتاب الفرائض، باب الحقوا الفرائض بأهلها، رقم: 4141]

تقسیم وراثت (جدید اعشاریہ نظام کے مطابق)

کل ترکہ: 100

حصے:

◈ بیوی: 1/8 = 12.5
◈ دو بیٹیاں (مشترکہ): 2/3 = 66.66
◈ باپ (عصبہ): 20.84
◈ بہن: محروم

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے