سوال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اللہ بچایا عرف حاجی کا انتقال ہوگیا، اس کے ورثاء میں ایک بیوی، ایک علاتی بہن اور ایک کزن (سوت عورت) شامل ہیں، نیز فوت ہونے والے کے دادا کے دو بھائیوں کی نرینہ اولاد بھی موجود ہے۔ شریعت محمدی ﷺ کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میت کی ملکیت میں سے سب سے پہلے کفن دفن کے اخراجات، قرضے اور وصیت کو (بشرطیکہ وصیت مال کے تہائی حصے سے زیادہ نہ ہو) پورا کرنے کے بعد باقی ترکہ کو تقسیم کیا جائے گا۔ ترکہ خواہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ، اسے ایک روپیہ فرض کر کے ورثاء کے حصے اس طرح مقرر ہوں گے:
تقسیم ورثاء (پرانے طریقے کے مطابق)
◈ فوتی: اللہ بچایا عرف حاجی
کل ملکیت = 1 روپیہ
◈ بیوی = 4 آنہ
◈ بہن (علاتی) = 8 آنہ
◈ کزن (عورت) = محروم
◈ دادا کے بھائیوں کی نرینہ اولاد = 4 آنہ (مشترکہ)
دلائل
قرآن مجید سے دلیل:
﴿فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾ …النساء
﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾ …النساء
حدیث شریف سے دلیل:
((ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقى فلأولى رجل ذكر))
صحیح البخاری، کتاب الفرائض، باب میراث ابن الابن اذا لم يكن ابن، رقم الحدیث: ٦٧٣٥
صحیح مسلم، کتاب الفرائض، باب الحقوا الفرائض باهلها، رقم: ٤١٤١
جدید اعشاری تقسیم
◈ فوتی: اللہ بچایا عرف حاجی
کل ملکیت = 100
◈ بیوی = 25 (یعنی 1/4 حصہ)
◈ بہن = 50 (یعنی 1/2 حصہ)
◈ کزن (عورت) = محروم
◈ دادا کے بھائیوں کی نرینہ اولاد (عصبہ) = 25
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب