سوال
علماء کرام سے دریافت کیا گیا ہے کہ:
محمد ابراہیم نامی شخص کا انتقال ہوگیا۔ اس نے ورثاء میں چھوڑا:
◈ ایک بیوی: روشن بیگم
◈ پانچ بیٹے: امان اللہ، عنایت اللہ، حبیب اللہ، امداد اللہ، رحمت اللہ
◈ چھ بیٹیاں: اشرف النساء، ارشاد بیگم، زرینہ بیگم، شمشاد بیگم، مجیدہ بیگم، رُخسانہ بیگم
شریعتِ محمدی کے مطابق ہر وارث کو کتنا حصہ ملے گا؟
اس کے بعد رحمت اللہ کا انتقال ہوا، جس نے ورثاء میں چھوڑا:
◈ چار سگّی بہنیں
◈ دو اخیافی بہنیں
◈ چار اخیافی بھائی
◈ ایک ماں
اس کے بعد امان اللہ کا انتقال ہوا، جس نے ورثاء میں چھوڑا:
◈ ایک بیوی
◈ چھ بیٹیاں
◈ تین بھائی
◈ دو سگّی بہنیں
◈ چار اخیافی بہنیں
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ:
➊ فوت ہونے والے کی ملکیت سے سب سے پہلے کفن دفن کا خرچ نکالا جائے گا۔
➋ اس کے بعد اگر کوئی قرضہ ہے تو وہ ادا کیا جائے گا۔
➌ پھر اگر جائز وصیت ہے تو ایک تہائی مال (1/3) سے ادا کی جائے گی۔
➍ اس کے بعد باقی جائیداد کو منقول و غیر منقول سب ملا کر ایک روپے (یعنی کُل مال) کی بنیاد پر ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔
—
پہلا انتقال: محمد ابراہیم
کل ملکیت: 1 روپیہ
وارثین کا حصہ درج ذیل ہوگا:
◈ بیوی روشن بیگم: 2 آنے
◈ بیٹے:
➊ امان اللہ: 1 آنہ 9 پائی
➋ عنایت اللہ: 1 آنہ 9 پائی
➌ حبیب اللہ: 1 آنہ 9 پائی
➍ امداد اللہ: 1 آنہ 9 پائی
➎ رحمت اللہ: 1 آنہ 9 پائی
◈ بیٹیاں:
➊ اشرف النساء: 2/1/10 پائی
➋ ارشاد بیگم: 2/1/10 پائی
➌ شمشاد بیگم: 2/1/10 پائی
➍ مجیدہ بیگم: 2/1/10 پائی
➎ زرینہ بیگم: 2/1/10 پائی
➏ رُخسانہ بیگم: 2/1/10 پائی
—
دوسرا انتقال: رحمت اللہ
کل ملکیت: 1 آنہ 9 پیسہ
وارثین کا حصہ درج ذیل ہوگا:
◈ ماں روشن بیگم: 2/1/3 پائی
◈ چار سگّی بہنیں: 2 آنہ مشترک
◈ چار اخیافی بھائی: 2/1/3 پائی مشترک
◈ دو اخیافی بہنیں: محروم
کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
((ألحقوا الفرائض بأهلها فمابقى فلأولى رجل ذكر.))
—
تیسرا انتقال: امان اللہ
کل ملکیت: 1 آنہ 9 پائی
وارثین کا حصہ درج ذیل ہوگا:
◈ بیوی: 8/5/2 پائی
◈ چھ بیٹیاں: ہر ایک کو 2/1/2 پائی
◈ تین سگّے بھائی: ہر ایک کو 1 پائی
◈ دو سگّی بہنیں: (ذکر شدہ تقسیم کے مطابق)
—
چوتھا انتقال: زاہدہ بیگم
کل ملکیت: 3/1/2 پائی
وارثین کا حصہ درج ذیل ہوگا:
◈ بیٹی: 20/7 پائی
◈ بیٹی: 20/7 پائی
◈ بیٹی: 20/7 پائی
◈ بیٹا: 10/7 پائی
◈ خاوند: 12/7 پائی