وراثت کا مسئلہ: ماں، بیوی، بھائی اور بہن کے حصوں کی شرعی تقسیم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 652

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ محمد بلال نامی شخص فوت ہوگئے ہیں۔ ان کے ورثاء میں ماں، بھائی، بہن، اخیافی بہن اور بیوی (جو منکوحہ مدخولہ ہے) شامل ہیں۔
شریعتِ محمدی کے مطابق ہر حق دار کو کتنا حصہ ملے گا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے پہلے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ:

➊ فوت ہونے والے کی ملکیت میں سے سب سے پہلے کفن دفن کا خرچ پورا کیا جائے گا۔
➋ اس کے بعد اگر کوئی قرضہ باقی ہے تو اسے ادا کیا جائے گا۔
➌ پھر اگر کوئی وصیت کی گئی ہے تو اس کو بھی صرف ثلث (ایک تہائی مال) سے پورا کیا جائے گا۔
➍ اس کے بعد باقی مال خواہ وہ منقول ہو یا غیرمنقول، اسے ایک روپیہ فرض کرکے ورثاء میں اس طرح تقسیم کیا جائے گا:

تقسیمِ وراثت (محمد بلال کی ملکیت = 1 روپیہ)

ماں → 2 آنے 8 پائی
بیوی → 4 آنے
بھائی → 2 پائی 6 آنہ
بہن → 1 پائی 3 آنہ
اخیافی بہن → محروم

بچے ہوئے حصے کی تقسیم

باقی ایک پائی بچے گی۔ اس ایک پائی کو تین حصے کیا جائے گا:

◈ ان میں سے دو حصے مذکر (لڑکا/بھائی) کو ملیں گے۔
◈ اور ایک حصہ مؤنث (بہن) کو دیا جائے گا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے