سوال
➊ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مراد خاتون فوت ہوگئیں، اور ان کے ورثاء میں ایک بیٹی اور ایک پوتی ہیں؟
➋ مسمات بان فوت ہوگئیں جن کے ورثاء میں ایک بہن اور ایک بھتیجی ہیں۔ وضاحت فرمائیں کہ شریعت محمدی کے مطابق ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات جان لینی چاہیے کہ میت کے ترکہ (چھوڑی ہوئی جائیداد) میں سے:
◈ سب سے پہلے اس کے کفن دفن کے اخراجات نکالے جائیں گے،
◈ اس کے بعد اگر قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے گا،
◈ پھر اگر وصیت کی ہو تو کل ترکہ کے ایک تہائی حصے تک پوری کی جائے گی،
◈ اس کے بعد جو کچھ بچے گا، اسے کل ترکہ (ایک روپیہ) مان کر درج ذیل طریقے سے تقسیم کیا جائے گا۔
(1) مراد خاتون کا معاملہ – کل ترکہ: 1 روپیہ
ورثاء:
◈ بیٹی: 8 آنے
◈ پوتی: 2 آنے 8 پائیاں
باقی جو ترکہ بچے گا، یعنی 5 آنے 8 پائیاں، اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا:
◈ دو حصے بیٹی کو ملیں گے،
◈ ایک حصہ پوتی کو دیا جائے گا۔
(2) مسمات بان کا معاملہ – کل ترکہ: 1 روپیہ
ورثاء:
◈ بہن: 8 آنے
◈ بھتیجی: 8 آنے
جدید اعشاریہ نظام میں تقسیم
مراد خاتون کا ترکہ – کل جائیداد: 100
◈ بیٹی: 72.22 (یعنی 2/1)
◈ پوتی: 27.78 (یعنی 6/1)
مسمات بان کا ترکہ – کل جائیداد: 100
◈ بہن: 50 (یعنی 2/1)
◈ بھتیجی: 50
هذا ما عندي، والله أعلم بالصواب