وراثت کا شرعی مسئلہ: بیوی، بیٹوں اور بھائی میں میراث کی تقسیم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 625

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ بنام کموں فوت ہوگیا جس نے وارث چھوڑے: 2 بیٹے عمرالدین اور میر خان اور ایک بیوی بنام خاتون۔ اس کے بعد میر خان فوت ہوگیا جس نے وارث چھوڑے: ماں اور بھائی عمرالدین۔ بتائیں کہ شریعت محمدی کے مطابق ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے پہلے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ مرحوم کی کل ملکیت میں سے:

◄ پہلے کفن دفن کا خرچ نکالا جائے گا۔
◄ اس کے بعد اگر کوئی قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے گا۔
◄ پھر اگر کوئی جائز وصیت کی ہے تو کل مال کے تیسرے حصے تک پوری کی جائے گی۔
◄ اس کے بعد جو مال باقی بچے گا، چاہے منقول ہو یا غیر منقول، اسے ایک روپیہ قرار دے کر شرعی اصول کے مطابق ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔

مرحوم کموں کی میراث کی تقسیم

◄ مرحوم کموں کی بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا۔
﴿فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾
یعنی مسمات خاتون کو 2 آنے ملیں گے۔

◄ باقی جو ملکیت بچے گی اس میں:
✿ آدھا حصہ یعنی 7 آنے عمرالدین کو ملے گا۔
✿ دوسرا آدھا حصہ یعنی 7 آنے میر خان کو ملے گا۔

میر خان کی میراث کی تقسیم

اس کے بعد میر خان فوت ہوا۔ اس کے وارث درج ذیل ہیں:

◄ ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔
﴿وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَ‌كَ﴾

◄ باقی ساری ملکیت بھائی عمرالدین کو عصبہ ہونے کی حیثیت سے ملے گی۔

جدید اعشاریہ فیصد طریقہ تقسیم

مرحوم کموں کی کل ملکیت: 100

◄ بیوی = 1/8 = 12.5%
◄ 2 بیٹے = 87.5% (فی کس 43.75%)

میر خان کی کل ملکیت: 43.75

◄ ماں = 1/6 = 14.583%
◄ بھائی عمرالدین (عصبہ) = 29.167%

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے