وراثت کا شرعی مسئلہ: بیوی، بہن اور چچازاد بہن کے بیٹے کی تقسیم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر: 567

سوال

علمائے دین کی خدمت میں عرض ہے کہ رانو خان کا انتقال ہو گیا ہے، اس نے ورثاء میں ایک بیوی، ایک بہن اور ایک چچا زاد بہن کا بیٹا چھوڑا ہے۔ برائے کرم وضاحت فرمائیں کہ شریعتِ محمدیہ کے مطابق ہر ایک کا کتنا حصہ بنتا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ میراث کی تقسیم سے پہلے مرحوم کے مال میں سے درج ذیل امور پورے کیے جائیں:

کفن دفن کا خرچ مرحوم کی ملکیت میں سے نکالا جائے گا۔
قرض اگر کوئی ہو تو اس کی ادائیگی کی جائے گی۔
➌ اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو وہ کل مال کے ثلث (ایک تہائی) میں سے پوری کی جائے گی۔

اس کے بعد مرحوم کا کل ترکہ (منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد) کو ایک روپیہ فرض کر کے تقسیم کیا جائے گا۔

تقسیمِ ترکہ

بہن کا حصہ:
بہن کو نصف (آدھا) ملے گا، یعنی 8 آنے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿إِنِ ٱمْرُ‌ؤٌا۟ هَلَكَ لَيْسَ لَهُۥ وَلَدٌ وَلَهُۥٓ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَ‌كَ﴾

بیوی کا حصہ:
بیوی کو ایک چوتھائی (ربع) ملے گا، یعنی 4 آنے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلَهُنَّ الرُّ‌بُعُ مِمَّا تَرَ‌كْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ﴾

چچازاد بہن کے بیٹے کا حصہ:
باقی مال جو بچے گا، یعنی 4 آنے، وہ بطور عصبہ چچازاد بہن کے بیٹے کو دیا جائے گا۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
"الحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فلأولى رجل ذكر”

موجودہ اعشاریہ نظام کے مطابق تقسیم

اگر کل ترکہ 100 روپے ہو تو اس طرح تقسیم ہوگا:

◈ بہن: 1/2 = 50 روپے
◈ بیوی: 1/4 = 25 روپے
◈ چچازاد بہن کا بیٹا (عصبہ): 25 روپے

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے