سوال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ لطف علی اور بلوچ خان دونوں بھائی تھے۔ بلوچ خان کا انتقال ہوگیا، اس نے ایک بیٹا "دودا” چھوڑا۔ اس کے بعد دوسرا (یعنی دودا) بھی فوت ہوگیا جس نے چار بیٹے غلام شاہ، غلام اللہ، غلام حسین اور ابراہیم چھوڑے۔ پھر غلام اللہ کا انتقال ہوگیا جس کے وارث دو بیٹے (خدا بخش اور دودا)، ایک بیٹی اور ایک پوتا ہیں۔ اس وقت بلوچ خان کے علاوہ کوئی بھی وارث موجود نہیں ہے۔ شریعت محمدی کے مطابق وضاحت فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سب سے پہلے مرحوم کی جائیداد میں سے:
➊ کفن دفن کے اخراجات نکالے جائیں۔
➋ اگر مرحوم پر قرض ہے تو اسے ادا کیا جائے۔
➌ پھر اگر کوئی جائز وصیت کی گئی ہے تو اسے کل مال کے ایک تہائی حصے سے پورا کیا جائے۔
اس کے بعد بقیہ جائیداد، خواہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ، تقسیم کی جائے گی۔ طریقہ یہ ہوگا کہ ہر مرحوم کی جائیداد کو ایک روپیہ فرض کر کے تقسیم کی وضاحت کی جائے گی۔
پہلی وفات: بلوچ خان
◈ ملکیت: 1 روپیہ
◈ وارث: بیٹا "دودا” → 1 روپیہ (بطور عصبہ)
دوسری وفات: دودا
◈ ملکیت: 1 روپیہ
◈ وارث:
✿ غلام شاہ → 4 آنے
✿ غلام اللہ → 4 آنے
✿ غلام حسین → 4 آنے
✿ ابراہیم → 4 آنے
تیسری وفات: غلام اللہ
◈ ملکیت: 1 روپیہ
◈ وارث: بیٹا "بلوچ خان” → 1 روپیہ (بطور عصبہ)
چوتھی وفات: غلام حسین اور ابراہیم
◈ ملکیت: (اپنی اپنی 1 روپیہ جائیداد)
◈ وارث: صرف بھتیجا "بلوچ خان” (یہی وارث ہوگا)
پانچویں وفات: لطف علی
◈ ملکیت: 1 روپیہ
◈ وارث:
وارث | پائی | آنے |
---|---|---|
بیٹا خدا بخش | 04 | 06 |
بیٹا دودا | 04 | 06 |
بیٹی | 02 | 03 |
علاتی پوتا بلوچ | محروم | — |
باقی 2 پائیاں بچیں گی، انہیں 5 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا:
✿ ہر بیٹے کو 2 حصے
✿ بیٹی کو 1 حصہ
آخری صورت
اس کے بعد جب مذکورہ شخص فوت ہوگیا اور اس کا کوئی دوسرا وارث نہیں رہا سوائے بھتیجے کے، تو پوری جائیداد بھتیجے کو ملے گی۔
جدید اعشاریہ نظام تقسیم
◈ میت: بلوچ خان
✿ کل ملکیت: 100
✿ وارث: بیٹا (عصبہ) → 100
◈ میت: دودا
✿ کل ملکیت: 100
✿ وارث: 4 بیٹے (عصبہ) → فی کس 25
◈ میت: غلام اللہ (بیٹا)
✿ کل ملکیت: 25
✿ وارث: بیٹا (عصبہ) → 25
◈ میت: غلام حسین (بیٹا)
✿ کل ملکیت: 25
✿ وارث: بھتیجا (عصبہ) → 25
◈ میت: لطف علی
✿ کل ملکیت: 100
✿ وارث:
▸ 2 بیٹے → 80 (فی کس 40)
▸ 1 بیٹی → 20
▸ علاتی پوتا → محروم
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب