وراثت کا شرعی حکم: والد کی زمین بیٹے کے نام اور بھائیوں میں تقسیم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 636

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ بنام حاجی امام بخش نے اپنی زندگی ہی میں اپنی زمین اپنے بیٹے مانی خان کے نام پر کروادی تھی، حالانکہ مرحوم کے 4 بیٹے تھے۔ اس کے بعد مانی خان فوت ہوا جس نے اپنے پیچھے تین بھائی وارث چھوڑے۔ بتائیں کہ شریعت محمدی ﷺ کے مطابق ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یاد رکھنا ضروری ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی ملکیت میں سے:

◄ اس کے کفن دفن کا خرچہ نکالا جائے۔
◄ پھر اگر کوئی قرض باقی ہے تو اسے ادا کیا جائے۔
◄ اس کے بعد اگر کوئی جائز وصیت کی تھی تو اسے کل مال کے تیسرے حصے تک سے پورا کیا جائے۔

اس ترتیب کے بعد جو مال باقی بچے، خواہ منقولہ ہو یا غیرمنقولہ، اسے تقسیم کیا جائے گا۔

مرحوم امام بخش کی ملکیت (1 روپیہ فرض کیا گیا)

◄ بیٹا = 4 آنے
◄ بیٹا = 4 آنے
◄ بیٹا = 4 آنے
◄ بیٹا = 4 آنے

اس کے بعد مانی خان کی وفات کے بعد تقسیم

مانی خان کی ملکیت کو بھی 1 روپیہ فرض کیا جائے گا۔

وارثین:
◄ بھائی = 5 آنے 4 پائی
◄ بھائی = 5 آنے 4 پائی
◄ بھائی = 5 آنے 4 پائی

نوٹ

اگر ملکیت والد (امام بخش) کی تھی تو تقسیم اسی طرح ہوگی۔

جدید اعشاریہ فیصد نظام تقسیم

مانی خان کی الگ سے ملکیت تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے وارث بھی یہی تین بھائی ہیں۔
لہٰذا والد (امام بخش) اور مانی خان کی کل ملکیت کو 100 شمار کر کے تینوں بھائیوں کو برابر ایک ایک حصہ دے دیا جائے۔

تقسیم:
◄ 3 بھائی (عصبہ) = 100 فی کس = 33.333 فیصد

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے