وراثت میں بیٹی کو محروم کرنا اور رشتہ داروں سے قطع تعلق
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام – مکمل کتاب کا لنک

جائیداد کی غلط تقسیم

بعض بدنصیب افراد ایسے ہیں جو اپنی جائیداد کی تقسیم اس طریقے پر نہیں کرنا چاہتے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں دیا ہے۔ ان لوگوں کی سوچ اور عمل اسلامی احکامات کے برخلاف ہوتا ہے، اور وہ اپنی خاندانی روایات یا ذاتی مفادات کو شریعت پر ترجیح دیتے ہیں۔

بیٹی کو حق نہ دینا

◈ کچھ لوگ بیٹی کو وراثت دینے کو اپنی خاندانی عزت اور روایات کے خلاف سمجھتے ہیں۔
◈ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی جائیداد بیٹوں یا بعض اوقات پوتوں کے نام منتقل کر دیتے ہیں تاکہ بیٹیوں، پوتیوں یا نواسیوں کو وراثت کا حق نہ ملے۔

جھوٹ اور فریب کے ذریعے وراثت کی حق تلفی

◈ بعض افراد جائیداد سے بچنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ مقروض ہیں، تاکہ وارثوں کو ان کا جائز حق نہ مل سکے۔
◈ کبھی کبھار ایسی وصیت بھی کرتے ہیں جو شریعت کے خلاف ہو، جس سے بعض وارثوں کا حق مارا جاتا ہے۔

کبیرہ گناہ اور قرآن کا انتباہ

ایسے افراد جو اللہ کی مقرر کردہ وراثتی حدود سے تجاوز کرتے ہیں، وہ سخت گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے وراثت کے مسائل قرآن کریم میں بیان کرنے کے بعد فرمایا:

"تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٣﴾ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ”    (النساء)
’’یہ حدیں اللہ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرماں برادری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنم میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور ایسوں کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے‘‘

ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ:
◈ وراثت میں اللہ تعالیٰ نے جو حصے مقرر فرمائے ہیں وہ اس کی "حدود” (حدیں) ہیں۔
◈ جو شخص ان حدود کی اطاعت کرے، وہ جنت میں داخل ہوگا۔
◈ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور ان حدود سے تجاوز کرے، اس کے لیے جہنم ہے اور ذلت آمیز عذاب ہے۔

لہٰذا، وراثت کے کسی حقدار کو محروم کرنا، یا کسی کے حق میں کمی بیشی کرنا سخت گناہ ہے، چاہے یہ کسی بھی حیلہ و بہانہ سے ہو۔

قریبی رشتہ داروں سے قطع تعلق اور صلہ رحمی نہ کرنا

اسلام رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات (صلہ رحمی) کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ ان تعلقات کو توڑ دینا یا نظرانداز کرنا سخت گناہ ہے اور اس کے انجام کے متعلق قرآن اور احادیث میں سخت تنبیہ کی گئی ہے۔

قرآن مجید میں تنبیہ

"فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ ﴿٢٢﴾ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ” (محمد)
’’اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کرو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے‘‘۔

احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں صلہ رحمی

اللہ تعالیٰ کا رشتہ داروں سے تعلق کا وعدہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے رحم (رشتہ داری) سے فرمایا کہ جو تجھے ملائے گا اللہ اسے ملائے گا اور جو تجھے توڑے گا اللہ اسے توڑے گا”
(بخاری۔ الادب۔ باب من وصل وصلہ اللہ 5987، مسلم۔ البر والصلہ۔ باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا 2554)

صلہ رحمی کا اصل مفہوم

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو (کسی رشتہ دار کے ساتھ) احسان کے بدلے میں احسان کرتا ہے بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جب اس سے قطع رحمی (بدسلوکی) کی جائے تو وہ صلہ رحمی (اچھا سلوک) کرے”
(بخاری 5991)

رزق اور عمر میں برکت کا ذریعہ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص اپنی روزی میں فراخی اور عمر میں اضافہ چاہتا ہے تو وہ صلہ رحمی کرے”
(بخاری: 5986، مسلم :2557)

قطع رحمی کا انجام

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"رشتہ داروں کے ساتھ بدسلوکی (قطع رحمی) کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا”
(بخاری: الادب، باب: اثم القاطع 5984۔ مسلم: 2556)

دنیا اور آخرت میں سزا

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ اللہ اس کے مرتکب کو بہت جلد دنیا ہی میں اس کا بدلہ دے اور آخرت میں اس کو عذاب دے، سوائے دو گناہوں کے:
(۱) امام وقت کے خلاف بغاوت کرنا
(۲) رشتہ داروں کے ساتھ قطع رحمی کرنا”
(ابن ماجہ: 4211)

ایمان اور حسن سلوک

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
1۔ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے
2۔ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا ہو اسے چاہیے کہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرے
3۔ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ بھلائی کی بات کرے یا پھر خاموش رہے
(بخاری۔ الادب۔ باب اکرام الضیف 6138، مسلم۔ الایمان۔ الحث علی اکرام الجار والضیف 47)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1