سوال :
قرآن مجید کی رو سے اسلام نے بیٹی کو بیٹے کی نسبت میراث میں آدھا حصہ دیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار اسے غیر منصفانہ قرار دیتے ہیں۔ حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد عثمانی نے قرآن مجید کے اس حکم کو تبدیل کرنے اور اجتہاد کرنے کی بات کی ہے۔ کیا قرآن مجید کا یہ حکم غیر منصفانہ اور مساوات مرد و زن کے خلاف ہے؟ نیز کیا قرآن وسنت کے واضح اور صریح احکام اور نصوص میں اجتہاد کیا جا سکتا ہے؟
جواب :
دور حاضر میں یہود و نصاری مسلمانوں کو صراط مستقیم سے ہٹانے کے لیے آئے دن گمراہ کن اور شرانگیز نعرے بلند کر رہے ہیں۔ ان نعروں میں آزادی نسواں، مساوات مرد و زن، منصوبہ بندی، انسانی آبادی کی فلاح و بہبود وغیرہ کی آڑ لے کر شیطانی تہذیب کے رسیا ہمہ تن مصروف عمل ہیں، تاکہ مسلمانوں کی نئی نسل اور خواتین کو ہدف بنا کر گھر گھر اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغاوت کو عام کر دیا جائے۔ مغربی تہذیب کی حشر سامانیوں کو عام کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ کو بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے اور دانشوران سور، حجاب اور وکلا قسم کے لوگ بھی اس کارزار میں نمایاں نظر آ رہے ہیں۔ ان دانشوران سوء نے مستشرقین کے زیر تربیت اسلامیات کی ڈگریاں حاصل کی ہوتی ہیں، اس لیے یہ بھی یہود و ہنود کی زبان بولتے اور رب العالمین کے مبنی بر انصاف احکامات پر دشنام طرازیاں کرتے ہیں۔ یہ لوگ احکم الحاکمین کی بہ نسبت اپنے آپ کو مخلوق کا زیادہ خیر خواہ قرار دیتے ہیں۔ اسلام نے عورت کو جس قدر حقوق دیے ہیں اس کی مثال کسی دوسرے مذہب میں ملنا ناممکن ہے۔ اسلام سے قبل عورت کو جس ذلت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا قرآن حکیم نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
﴿وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ * يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ﴾
(النحل: 58-59)
”اور ان میں سے جب کسی کو لڑکی پیدا ہونے کی بشارت دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے، خوش خبری کی برائی کی وجہ سے لوگوں سے چھپتے پھرتا ہے، سوچتا ہے کیا اس ذلت کو لیے ہوئے رکھے، یا اسے مٹی میں دبا دے؟ یہ لوگ کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں۔“
یہ آیت کریمہ سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام سے قبل عورت قعر مذلت میں گری ہوئی تھی، اسلام نے اسے عزت و وقار اور عفت و عصمت کا حسین لبادہ پہنایا۔ اسے ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے اعتبار سے بہت سے حقوق عطا کیے، اسے ذلت و نامرادی سے نکال کر احترام و اقدار کی وادی میں داخل کر دیا لیکن مغربی اقوام اور مغرب زدہ بے راہ رو افراد کو یہ بات گوارا نہ ہوئی۔ انہوں نے حقوق نسواں کے نام سے اسے حجاب اسلامی سے نکال کر سر بازار عریاں کر دیا۔ سیکولر اور لبرل معاشرے کے افراد نے عورت کے ان حقوق کو جو اسے اسلام نے عطا کیے، ہدف تنقید بنایا۔ معترضین نے عورت کی سربراہی، مردوں کے ساتھ اختلاط، معاشی و معاشرتی زندگی میں آزادانہ ماحول، دیت و شہادت، حجاب و ستر اور وراثت کے احکام کو اچھالا اور فضول و لا یعنی اعتراضات کیے اور ان معاملات کو ظلم و نا انصافی سے تعبیر کیا۔
حالانکہ ایسے افراد نے ہمیشہ عورت کو اس کے اصلی حقوق سے محروم رکھا ہے، بالخصوص وراثت کے احکام کو بہت پامال کیا۔ اسلام سے قبل عورت وراثت سے بالکل محروم تھی۔ ان کے ہاں یہ تصور تھا کہ عورت نہ تو جنگ میں حصہ لے سکتی ہے اور نہ اپنے خاندانی افراد کا تحفظ اور دفاع ہی کر سکتی ہے، لہذا وہ خاندان کی دولت کی وارث کیسے بن سکتی ہے؟ امام سعید بن جبیر اور امام مجاہد رحمہما اللہ سے مروی ہے:
إن المشركين يجعلون المال للرجال الكبار ولا يورثون النساء ولا الأطفال شيئا فأنزل الله ﴿لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا﴾
(تفسیر ابن کثیر 2/198-194، تفسیر ابن ابی حاتم 3/872)
”مشرکین وراثت کا مال بڑے مردوں کے لیے مقرر کرتے تھے، عورتوں اور بچوں کو وراثت میں سے کچھ نہیں دیتے تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: ”مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور زیادہ قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور زیادہ قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا، خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ، یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔“
اس سے معلوم ہوا کہ قبل از اسلام عورت وراثت سے محروم رکھی جاتی تھی تو اسلام نے اگر عورت کو حق وراثت دلوایا اور مختلف اعتبارات سے اس کے حقوق مقرر فرمائے۔ یہود و نصاری نے بھی عورت کے اس مسئلہ میں بے انصافی سے کام لیا ہے، اگرچہ ان کے ہاں عورت کا حق وراثت ہے لیکن عورت کے لیے اپنے ہی خاندان میں شادی کا حکم لگا کر عملاً اس حق کو ختم ہی کر دیا ہے، جیسا کہ پرانے عہد نامہ میں کتاب گنتی، باب نمبر (36)، آیت نمبر (8-7-6) میں ہے: ”سو صلا فحاد کی بیٹیوں کے حق میں خداوند کا حکم یہ ہے کہ وہ جن کو پسند کریں ان ہی سے بیاہ کریں لیکن اپنے باپ دادا کے قبیلہ ہی کے خاندانوں میں بیاہی جائیں، یوں بنی اسرائیل کی میراث ایک قبیلہ سے دوسرے قبیلہ میں نہیں جانے پائے گی، کیونکہ ہر اسرائیلی کو اپنے باپ دادا کے قبیلہ کی میراث کو اپنے قبضہ میں رکھنا ہو گا۔“
بائبل کی اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ عیسائیوں نے عورت پر اپنے ہی خاندان میں نکاح کی پابندی لگا کر اسے خود آزادی اور وراثت کے اصل قانون سے محروم کر دیا لیکن ان کے پر دردہ حضرات جو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے نابلد اور نا آشنا ہیں، وہ اسلام کے عدل و انصاف پر مبنی قوانین و احکام پر معترض ہوتے ہیں، حالانکہ ذات باری تعالیٰ عادل و منصف ہے اور عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی قانون بھی ظلم و تعدی پر مبنی نہیں ہے۔ اسلام نے وراثت کے بارے جتنے قوانین ذکر کیے ہیں وہ تمام عدل و انصاف پر مبنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد کا حق ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾
(النساء: 11)
”اللہ تعالیٰ تمھیں اولاد کے بارے حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔“
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تقسیم وراثت کا ایک اصول بیان فرمایا ہے کہ جب کوئی آدمی فوت ہو جائے اور اس کے ترکہ میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں تو تقسیم اس طرح ہوگی کہ جتنا حصہ دو لڑکیوں کو ملے گا اتنا حصہ اکیلے ایک لڑکے کا ہو گا۔ یہ تقسیم مبنی بر انصاف ہے، اس میں ظلم و تعدی کو ذرہ برابر بھی دخل نہیں۔ اسلام کے خاندانی نظام میں معیشت کی تمام تر ذمہ داری مرد کے کندھوں پر ہے، عورت کو نظام معیشت سے فارغ رکھا گیا ہے اور مرد کو اس کا کفیل بنایا گیا ہے۔ مرد پر عورت کے علاوہ اس کے بچوں، بوڑھے والدین، غلاموں اور دیگر ضروریات کا بھی بوجھ ہے، عورت کے پاس تو حق مہر کی صورت میں بھی مال آتا ہے اور اس کی ادائیگی بھی مرد ہی کرتا ہے، علاوہ ازیں عورت اپنے باپ، بھائی، خاوند اور بیٹے سے بھی حق وراثت پاتی ہے مگر اس کا اپنا خرچ بھی اس کے ذمہ نہیں، اس کو جو مال وراثت میں حاصل ہوتا ہے وہ اس کے پاس محفوظ رہتا ہے، چاہے اسے کاروبار میں لگائے، یا جمع کر کے رکھ چھوڑے، وہ جیسے چاہے اس مال میں تصرف کر سکتی ہے۔ اس لحاظ سے مرد کو عورت کی نسبت دگنا مال دیا گیا ہے، اس لیے اگر عورت کا حصہ نصف کی بجائے مرد کے برابر ہوتا تو یہ مرد پر ظلم تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ظلم نہیں کیا، کیونکہ وہ عادل و منصف ہونے کے ساتھ ساتھ حکیم و علیم بھی ہے، اس کے فیصلے درست ہوتے ہیں، جن میں ذرہ برابر بھی ظلم و نا انصافی کو دخل نہیں ہوتا۔ اگر دونوں کا وراثت میں حصہ برابر ہوتا تو عورت کی بجائے مرد یہ مطالبہ کر سکتا تھا کہ مجھ پر جو معاشی بوجھ اور ذمہ داریاں ہیں عورت کو بھی اس بارگراں میں شریک کیا جائے اور کچھ ذمہ داریاں اس پر ڈال دی جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ذمہ داریوں کے تعین کے اعتبار سے اسلام کا نظام وراثت فطری اور منصفانہ ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعین (113/2) میں یہ وجہ ذکر کی ہے کہ وراثت کا تعلق معاشی ذمہ داری کے ساتھ ہے اور بیٹا، بیٹی کے مقابلے میں باپ کی زیادہ مالی و معاشی خدمت سر انجام دیتا ہے، لہذا اس کو باپ کے ترکہ میں سے بھی زیادہ حصہ ملنا چاہیے۔ اسلام کے نظام وراثت میں بعض صورتیں ایسی بھی ہیں کہ مرد اور عورت کو برابر حصہ دیا گیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ﴾
(النساء: 11)
”میت کے ماں اور باپ میں سے ہر ایک کے لیے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے، اگر اس میت کی اولاد ہو۔“
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ میت کی اولاد کی صورت میں ماں باپ کا حصہ برابر ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کا حصہ برابر ذکر کر دیا ہے۔ بعض صورتوں میں عورت کا حصہ مرد سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے، مثال کے طور پر میت کے ترکہ میں ایک بیٹی اور دو بھائی ہیں تو ایک بیٹی کو ترکہ کا نصف حصہ ملے گا اور باقی نصف دونوں بھائیوں میں برابر تقسیم ہوگا۔ اس طرح یہاں میت کے بھائی کے مقابلہ میں بیٹی زیادہ حصہ لے رہی ہے، اس لیے کہ وراثت میں زیادہ قریبی رشتہ داروں کا حق زیادہ ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اسلام میں وراثت کے معاملہ میں عورت سے کہیں بھی ظلم و ستم اور نا انصافی سے کام نہیں لیا گیا۔ مرنے والے کے ساتھ عورت کو زیادہ قربت کی بنا پر اہمیت دی گئی ہے، جبکہ دوسری طرف مرد کی معاشی ذمہ داریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس بنیاد پر وراثت میں عورت کو کہیں کم اور کہیں زیادہ حصہ دے کر عدل و مساوات کی مثال قائم کر دی گئی ہے۔