سوال:
وراثت سے مانع کتنے اسباب ہیں، ہر ایک کی وضاحت کیجیے؟
جواب:
وہ اسباب جن کی وجہ سے وارث وراثت سے محروم ہو جاتا ہے وہ چار ہیں:
1. غلام ہونا: غلام نہ خود وارث بنتا ہے نہ اس کا کوئی وارث بنتا ہے کیونکہ اس کی تمام کمائی مالک کی ملکیت ہوتی ہے، البتہ وہ غلام جس کا کچھ حصہ آزاد ہو وہ اپنے آزاد شدہ حصے کے مطابق وارث ہوگا۔
غلام سے مراد دوران جنگ غیر مسلم گرفتار ہونے والے لوگ ہیں۔ موجودہ دور کے ملازم یا خادم اس زمرے میں نہیں آئیں گے بلکہ ان کے احکام عام آزاد مسلمانوں جیسے ہوں گے۔
❀ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أصاب المكاتب حدا أو ميراثا يرث على قدر ما عتق منه
جب مکاتب غلام حد یا میراث کو پہنچے تو وہ اپنے آزاد شدہ حصے کے مطابق وارث بنایا جائے گا۔
(سنن ابی داود، کتاب الدیات، باب دیة المکاتب إذا کان عنده ما یؤدی، حدیث: 4582؛ جامع الترمذی، کتاب البیوع، باب ما جاء فی المکاتب إذا کان عنده ما یؤدی، حدیث: 1259، وقال: حدیث حسن)
2. قتل: جس قتل کی وجہ سے قصاص یا دیت لازم آئے، اس قتل کی بنا پر قاتل وراثت سے محروم ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يرث القاتل شيئا
قاتل کسی چیز کا وارث نہیں بن سکتا۔
(سنن ابی داود، کتاب الدیات، باب دیات الأعضاء، حدیث: 4564؛ جامع الترمذی، کتاب الفرائض، باب ما جاء فی إبطال میراث القاتل، حدیث: 2109، وقال: حدیث صحیح)
3. اختلاف دین: مسلم اور غیر مسلم ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يرث المسلم الكافر ولا الكافر المسلم
مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا۔
(صحیح البخاری، کتاب الفرائض، باب لا یرث المسلم الکافر، حدیث: 6764؛ صحیح مسلم، کتاب الفرائض، باب لا یرث المسلم الکافر، حدیث: 1614)
4. ولد زنا: زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ اپنے زانی باپ کا اور باپ بچے کا وارث نہیں ہوگا، البتہ وہ اپنی ماں کا اور اس کی ماں اس کی وارث ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الولد للفراش وللعاهر الحجر
اولاد صاحب بستر کی ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔
(صحیح البخاری، کتاب الحدود، باب للعاهر الحجر، حدیث: 6818؛ صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب الولد للفراش، حدیث: 1458)
یہی حکم ولد لعان کا ہے۔
لعان سے مراد یہ ہوتا ہے کہ خاوند اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور بیوی اس کا انکار کرے تو دونوں عدالت میں حاضر ہو کر ایک دوسرے پر لعان کریں گے اور عدالت ان کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی کر دے گی۔
ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اپنی بیوی سے لعان کیا اور بچے کا انکار کر دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند اور بیوی کے درمیان جدائی کر دی اور بچہ عورت کے ساتھ ملا دیا۔ اور پھر یہ اصول جاری ہو گیا:
أنه يرثها وترث منه ما فرض الله لها
وہ بچہ اپنی ماں کا اور ماں اپنے بچے کی وارث ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے اس کا حصہ مقرر کیا ہے۔
(صحیح مسلم، کتاب اللعان، حدیث: 1492)