وراثتی زمین پر بہن کے حصے کی واپسی کا شرعی حکم
سوال:
علمائے کرام سے استفسار ہے کہ:
دو بھائیوں اور ایک بہن کو وراثت میں کچھ زمین ملی تھی۔ تقریباً تیس سال قبل بہن نے اپنی رضا مندی سے یہ زمین دونوں بھائیوں کے نام منتقل کروا دی تھی۔ اب ان دو بھائیوں میں سے ایک کا انتقال ہو چکا ہے، اور مرحوم بھائی کی اولاد موجود ہے۔
مذکورہ بہن اب اپنی وہ زمین واپس مانگ رہی ہے جو اس نے تیس سال پہلے دونوں بھائیوں کے نام کر دی تھی۔ اس نے یہ مطالبہ مرحوم بھائی کی بیماری کے دوران بھی کیا تھا اور اب اس کے بعد مرحوم کی اولاد اور زندہ بھائی سے بھی کر رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ:
کیا بھائی اور مرحوم بھائی کی اولاد پر شرعاً لازم ہے کہ وہ بہن کا دیا ہوا حصہ اسے واپس کریں؟
اگر وہ ایسا نہ کریں تو کیا وہ گناہ گار ہوں گے؟
اس معاملے کی وضاحت قرآن و حدیث کی روشنی میں فرمائیں۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے فرمایا:
’’بہن نے آج سے تیس سال پہلے اپنا حصہ دونوں بھائیوں کے نام لگوا دیا تھا ۔ اپنی رضامندی سے‘‘
اس کے بعد آپ نے یہ بھی تحریر فرمایا:
’’اب مذکورہ بہن اپنا حصہ جو دونوں بھائیوں کے نام لگوا دیا تھا وہ واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہے‘‘
بہن کی رضامندی حقیقتاً موجود تھی یا دباؤ میں خاموشی؟
بہن کے اب اپنے حصے کی واپسی کا مطالبہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ممکنہ طور پر تیس سال قبل اس نے اپنے حصہ کو دل سے رضامندی کے ساتھ بھائیوں کے نام نہیں لگوایا تھا، بلکہ معاشرتی دباؤ کی وجہ سے خاموش رہی، اور بھائیوں و دیگر رشتہ داروں نے اس خاموشی کو اس کی رضا مندی تصور کر لیا۔
اگر واقعی بہن نے دل سے رضامندی کے بغیر، محض معاشرتی دباؤ کے تحت خاموشی اختیار کی تھی، تو ایسی صورت میں:
◈ زندہ بھائی اور مرحوم بھائی کی اولاد پر شرعاً لازم ہے کہ وہ بہن کو اس کا شرعی حصہ واپس کریں۔
◈ اگر وہ ایسا نہ کریں تو وہ فرض کے تارک اور گناہ گار ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ سورۃ النساء میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَمَن يَعۡصِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُۥ يُدۡخِلۡهُ نَارًا خَٰلِدٗا فِيهَا وَلَهُۥ عَذَابٞ مُّهِينٞ﴾
(النساء: 14)
’’جو کوئی نافرمانی کرے اللہ کی اور اس کے رسول کی اور نکل جاوے اس کی حدوں سے، ڈالے گا اس کو آگ میں، ہمیشہ رہے گا اس میں، اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔‘‘
اگر بہن نے واقعی دل کی رضا سے حصہ بھائیوں کو دیا تھا:
دوسری صورت یہ ہے کہ اگر بہن نے بلا کسی جبر، زبردستی یا معاشرتی دباؤ کے، مکمل رضا و رغبت سے:
◈ اپنا حصہ بھائیوں کو ہبہ (تحفہ) کر دیا تھا،
◈ اور قانونی طور پر ان کے نام منتقل بھی کروا دیا تھا،
تو ایسی حالت میں:
◈ اب وہ اپنا حصہ واپس لینے کا حق نہیں رکھتی۔
◈ نہ ہی وہ واپسی کا مطالبہ کر سکتی ہے۔
◈ بلکہ اگر بھائی یا ان کی اولاد واپس کر بھی دیں، تو وہ اسے لینا شرعاً جائز نہیں کیونکہ یہ حصہ وہ برضا و رغبت پہلے ہی دے چکی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«لَیْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْء الَّذِیْ یَعُوْدُ فِیْ ہِبَتِہِ کَالْکَلْبِ یَرْجِعُ فِیْ قَیْئِہِ»
(صحيح بخارى، جلد 1، صفحہ 357)
’’ہم کو یہ بری مثال اپنے اوپر لانا پسند نہیں، جو شخص ہبہ کر کے پھیر لے، وہ کتے کی طرح ہے جو قے کر کے پھر اس کو چاٹتا ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب