سوال
وحی کی ضرورت اور اس کی اقسام کتنی ہیں اور کیا کیا ہیں؟ مفصل جواب عنایت فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
چونکہ قرآن کریم حضور سرورِ کائنات حضرت محمد ﷺ پر وحی کے ذریعے نازل کیا گیا ہے، اس لیے سب سے پہلے وحی کے متعلق چند بنیادی باتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔
وحی کی ضرورت
ہر مسلمان اس حقیقت سے واقف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے، اور اس پر کچھ ذمہ داریاں عائد کی ہیں۔ ساتھ ہی پوری کائنات کو اس کی خدمت کے لیے مسخر کر دیا ہے۔ لہٰذا دنیا میں آنے کے بعد انسان کے لیے دو امور ناگزیر ہیں:
◄ کائنات اور اس میں موجود اشیاء سے درست استفادہ کرے۔
◄ کائنات کو استعمال کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے احکام کو مدنظر رکھے اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی عمل نہ کرے۔
ان دونوں مقاصد کے حصول کے لیے انسان کو علم کی ضرورت ہے۔
اگر یہ علم نہ ہو کہ کائنات کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی اشیاء کے خواص کیا ہیں اور ان سے فائدہ کیسے اٹھایا جاسکتا ہے؟ تو انسان کسی بھی چیز کو اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کرسکتا۔
اسی طرح اگر یہ نہ معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کیا ہے؟ وہ کن امور کو پسند اور کن کو ناپسند کرتا ہے؟ تو اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ممکن نہیں۔
علم کے تین ذرائع
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرتے وقت تین ذرائع علم عطا کیے:
➊ حواس: آنکھ، کان، زبان، ہاتھ اور پاؤں۔
➋ عقل۔
➌ وحی۔
کچھ چیزیں انسان کو حواس سے معلوم ہوتی ہیں۔
کچھ علم عقل سے حاصل ہوتا ہے۔
اور جو حقائق نہ حواس سے معلوم ہوسکتے ہیں، نہ عقل سے، ان کا علم وحی کے ذریعے عطا کیا جاتا ہے۔
ترتیب اور حدود
جو چیزیں حواس سے معلوم ہوتی ہیں، وہ عقل سے معلوم نہیں ہوسکتیں۔
مثلاً: آنکھ سے دیکھ کر دیوار کا سفید رنگ جانا ممکن ہے، لیکن صرف عقل سے یہ نہیں جانا جاسکتا۔
اسی طرح کچھ حقائق عقل سے سمجھ آتے ہیں، جو صرف حواس سے معلوم نہیں ہوسکتے۔
مثلاً: یہ جاننا کہ دیوار کسی انسان نے بنائی ہے، یہ عقل کی رہنمائی سے ہی ممکن ہے۔
جہاں حواس جواب دے دیتے ہیں، وہاں عقل کا دائرہ شروع ہوتا ہے۔ لیکن عقل کی رہنمائی بھی لامحدود نہیں۔
ایسے امور کہ دیوار کو کس طرح استعمال کرنے سے اللہ راضی ہوگا اور کس طرح ناراض ہوگا، نہ عقل سے معلوم ہوسکتے ہیں نہ حواس سے۔ ان سوالات کا جواب دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے وحی کو ذریعہ بنایا۔
وحی کی عقلی ضرورت
وحی انسان کے لیے سب سے اعلیٰ ذریعہ علم ہے، کیونکہ یہ ان سوالات کے جوابات دیتی ہے جن کا حل عقل اور حواس نہیں کرسکتے لیکن ان کا جاننا لازمی ہے۔
عقل اور مشاہدہ انسان کی ہدایت کے لیے کافی نہیں۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا تقاضا ہے کہ وہ انسان کو اندھیرے میں نہ چھوڑے بلکہ اس کی رہنمائی کے لیے ایک نظام عطا کرے۔ یہی نظام وحی اور رسالت ہے۔
لہٰذا وحی محض ایک دینی عقیدہ نہیں بلکہ ایک عقلی ضرورت بھی ہے۔ اس کا انکار دراصل اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے انکار کے مترادف ہے۔
وحی کی اقسام
وحی اور رسالت کا یہ سلسلہ حضور اکرم ﷺ پر مکمل ہوگیا۔ اب کسی پر وحی نازل نہیں ہوگی۔
وحی کے طریقے
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ وحی آپ پر کس طرح نازل ہوتی ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
◈ کبھی مجھے گھنٹی جیسی آواز سنائی دیتی ہے، یہ سب سے سخت طریقہ ہوتا ہے۔ لیکن جب یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے تو جو کچھ کہا گیا ہوتا ہے وہ مجھے یاد ہوچکا ہوتا ہے۔
◈ کبھی فرشتہ ایک مرد کی صورت میں میرے سامنے آتا ہے۔
1. گھنٹی جیسی آواز
یہ وحی کی سب سے سخت صورت تھی۔
شیخ محی الدین ابن عربیؒ نے وضاحت کی کہ:
◄ گھنٹی کی آواز مسلسل اور بغیر رکے آتی ہے۔
◄ اس کی سمت متعین نہیں کی جاسکتی، اسی طرح کلامِ الٰہی کی بھی کوئی سمت نہیں ہوتی بلکہ ہر طرف سے سنائی دیتا ہے۔
◄ اس کیفیت کے دوران نبی کریم ﷺ پر بہت بوجھ پڑتا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جاڑوں کے دنوں میں بھی وحی کے وقت آپ ﷺ کی پیشانی پسینے سے تر ہوجاتی تھی۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ کا چہرہ زرد ہوجاتا، دانت کپکپانے لگتے اور پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح چمکنے لگتے۔ (الاتقان 1/46)
کبھی اتنی شدت ہوتی کہ:
◄ آپ ﷺ کا سواری پر بوجھ بڑھ جاتا اور وہ بیٹھ جاتی۔
◄ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ران پر سر رکھا، وحی کے دوران اتنا دباؤ آیا کہ ران ٹوٹنے لگی۔ (زاد المعاد 9/8)
کبھی دوسروں کو بھی وحی کی ہلکی آواز سنائی دیتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شہد کی مکھیوں کی بھنبناہٹ جیسی آواز آتی تھی۔
2. فرشتہ انسانی شکل میں
حضرت جبرئیل علیہ السلام اکثر حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں تشریف لاتے۔
بعض اوقات کسی اور صورت میں بھی آتے۔
یہ طریقہ سب سے آسان ہوتا تھا۔ (الاتقان 1/46)
3. حضرت جبرئیل اپنی اصل صورت میں
یہ صرف تین بار ہوا:
➊ نبی کریم ﷺ کی خواہش پر۔
➋ معراج کے وقت۔
➌ مکہ مکرمہ میں اجیاد کے مقام پر (یہ آخری واقعہ سند کے لحاظ سے کمزور ہے)۔ (فتح الباری 1/18،19)
4. براہِ راست ہم کلامی
یہ شرف نبی کریم ﷺ کو بیداری کی حالت میں صرف معراج کی رات حاصل ہوا۔
ایک بار خواب میں بھی آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے۔ (الاتقان 1/46)
5. نفث فی الروع
حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی بھی صورت میں ظاہر ہوئے بغیر براہِ راست آپ ﷺ کے قلب مبارک میں بات القاء فرما دیتے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب