وحدت الوجود کا فلسفہ تحقیق اور شرعی حکم
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ55

سوال:

میں آپ کے موقر اسلامی جریدے ماہنامہ "الحدیث” کا مستقل قاری ہوں۔ آپ جس محنت اور عرق ریزی سے مسائل کی تحقیق و تنقیح فرماتے ہیں، اس سے دل کو اطمینان و سرور حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے زورِ قلم کو مزید بڑھائے۔

دو سوالات پوچھنا چاہتا ہوں، امید ہے کہ آپ ان کی تحقیق و تخریج اور تنقیح فرمائیں گے۔

پہلا سوال یہ ہے:

"فلسفہ وحدت الوجود کیا ہے؟ اس کی مکمل تفصیل اور تنقیح فرمائیں۔”

والسلام
آپ کا دینی بھائی
(محمد شیر وزیر، پی سی ایس آئی آر لیبارٹریز، پشاور)

تنبیہ: دوسرا سوال مع جواب آگے آرہا ہے، ان شاء اللہ۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وحدت الوجود کا مفہوم

اردو لغت کی ایک مشہور کتاب میں "وحدت الوجود” کا مطلب ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

📖 "تمام موجودات کو اللہ تعالیٰ کا وجود خیال کرنا، اور ماسویٰ کے وجود کو محض اعتباری سمجھنا، جیسے قطرہ، حباب، موج اور قعر وغیرہ کو پانی سمجھنا”
(حسن اللغات فارسی اردو، ص 941)

وارث سرہندی لکھتے ہیں:

📖 "صوفیوں کی اصطلاح میں، تمام موجودات کو خدا تعالیٰ کا وجود ماننا اور ماسوا کے وجود کو محض اعتباری سمجھنا۔”
(علمی اردو لغت، ص 1551)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

📖 "اتحادِ مطلق وہ نظریہ ہے، جو وحدت الوجود کے قائلین کا قول ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ مخلوق کا وجود عین خالق کا وجود ہے۔”
(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ، ج 10، ص 59)

وحدت الوجود کے قائلین اور ان کا نظریہ

حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ ابن عربی، تلمسانی، ابن سبعین، ششتری، ابن فارض، اور ان کے پیروکار یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ:

📖”وجود ایک ہے، انہیں وحدت الوجود والے کہا جاتا ہے، اور یہ تحقیق و عرفان کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ خالق کے وجود کو مخلوقات کے وجود کا عین قرار دیتے ہیں۔”
(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ، ج 2، ص 123-124)

حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ اس عقیدے کو غلو قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

📖”بعض غالی صوفی عوام کی توحید کو توحیدِ خاص قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اعتقادِ وحدت الوجود کو توحید قرار دے دیا، جبکہ یہ سراسر الحاد ہے۔”
(فتح الباری، ج 13، ص 348، کتاب التوحید، باب 1)

صوفیوں میں وحدت الوجود کا عقیدہ

بعض صوفی اس نظریے کے حامل رہے ہیں کہ "بندہ بھی خدا ہے اور خدا بھی بندہ”۔ اس کے بعض مشہور اقوال درج ذیل ہیں:

1۔ حاجی امداد اللہ تھانوی

📖”اور اس کے بعد اس کو ‘ہو، ہو’ کے ذکر میں اس قدر منہمک ہوجانا چاہیے کہ خود مذکور یعنی (اللہ) ہوجائے اور فنا در فنا کے یہی معنی ہیں، اس حالت کے حاصل ہوجانے پر وہ سراپا نور ہوجائے گا۔”
(کلیات امدادیہ، ص 18، ضیاء القلوب)
2۔ وحدت الوجود اور معبود و عبد کی یکسانیت

📖 "یہ عقیدہ رکھو کہ تمام چیزیں باطنی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ متحد ہیں اور ظاہری لحاظ سے اس کے علاوہ اور اس کا مغائر (غیر) ہیں۔”
(الرد علی القائلین بوحدۃ الوجود، ملا علی قاری، ص 13)

وحدت الوجود کا رد: علمائے کرام کی رائے

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے وحدت الوجود کے رد میں ایک رسالہ لکھا:

📖 "إبطال وحدة الوجود والرد على القائلين بها” (تقریباً 128 صفحات پر مشتمل)

قرآن و حدیث کی روشنی میں وحدت الوجود کا رد

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

📖 "أَأَمِنتُم مَن فِي السَّمَاءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ”
(الملک: 16)

حدیث مبارکہ:

📖 رسول اللہ ﷺ نے ایک لونڈی سے پوچھا: "اللہ کہاں ہے؟”

اس نے جواب دیا: "آسمان پر”

آپ ﷺ نے فرمایا: "یہ مومنہ ہے، اسے آزاد کردو۔”

(صحیح مسلم: 537، ترقیم دارالسلام: 1199)

نتیجہ: وحدت الوجود، ایک غیر اسلامی عقیدہ

وحدت الوجود کا عقیدہ خالق اور مخلوق میں یکسانیت کو فروغ دیتا ہے، جو اسلامی عقائد کے سراسر منافی ہے۔ علمائے کرام نے اس نظریے کو باطل، گمراہ کن اور کفریہ قرار دیا ہے۔ یہ عقیدہ حلولیت اور اتحاد کی راہ ہموار کرتا ہے، جو یہودیوں اور عیسائیوں کے عقائد سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1