سوال
وتر پڑھنے کا سنت طریقہ کیا ہے؟
مثلاً کوئی ایک رکعت پڑھتا ہے، کوئی دو اور کوئی تین اکٹھی بھی پڑھتا ہے، بالکل مغرب کی نماز کی طرح۔ اگر تین رکعت اکٹھی پڑھنی ہوں تو سنت طریقہ کیا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز وتر کے حوالے سے کئی پہلوؤں میں اختلاف موجود ہے، مثلاً:
➊ وتر کی کل رکعتیں کتنی ہیں؟
➋ کون سی تعداد زیادہ محبوب ہے؟
➌ یہ فرض ہیں یا نفل؟
➍ ان کی قضا ہے یا نہیں؟
➎ کیا یہ مکرر پڑھی جا سکتی ہیں؟
➏ کیا وتروں کے بعد نفل ادا کیے جا سکتے ہیں؟
➐ ان کے لیے بہتر وقت کون سا ہے؟
➑ کیا سواری پر وتر جائز ہے یا نہیں؟
➒ ان رکعات میں کون سی سورتیں پڑھنا مسنون ہیں؟
➓ رسول اللہ ﷺ نے کن اوقات میں یہ نماز پڑھی؟
11. کیا تین رکعت وتر جائز ہیں؟ اگر جائز ہیں تو کیا اکٹھی پڑھی جائیں یا دو سلاموں سے الگ کر کے؟ اکٹھی پڑھنے کی صورت میں کیا درمیانی التحیات پڑھنا ضروری ہے یا نہیں؟
ان سب امور کو سمجھنے کے بعد معاملہ واضح ہو جاتا ہے۔ مختصر نتیجہ یہ ہے کہ وتر تین رکعت ہیں۔ انہیں متصل بھی پڑھنا جائز ہے اور منفصل بھی۔ اسی طرح صرف ایک رکعت وتر پڑھنا بھی جائز ہے، کیونکہ یہ سلف صالحین سے ثابت ہے۔
وتر کی تین رکعتیں
حدیث:
عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ بِثَلَاثِ رَكَعَاتٍ
(نسائی ج۱ص۲۰۱)
’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔‘‘
مشابہت مغرب کی نماز سے ممانعت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا توتِرُوْا بِثَلاثِ أَوتروا بِخَمسٍ أو سبع لَا تَشبَّھُوْا بِصَلوۃِ الْمَغرب
(أخرجه الدار قطنی…، فتح الباری س۵۳۹، نیل الاوطار ج۶ ص۲۸۱ وغیرہ)
’’تین وتر نہ پڑھو، پانچ یا سات پڑھو۔ نماز مغرب سے مشابہت نہ کرو۔‘‘
یہ روایت مجموعی طور پر صحیح ہے اور محققین نے اس کی صحت کی تائید کی ہے۔ بظاہر پہلی روایت اور یہ حدیث متعارض معلوم ہوتی ہیں، مگر محدثین نے تطبیق دی ہے کہ یہ اختلاف ختم ہو جاتا ہے۔
حافظ ابن حجرؒ کی وضاحت
ان کے نزدیک اگر درمیانی تشہد نہ کیا جائے اور صرف آخری تشہد پر اکتفا کیا جائے تو مغرب سے مشابہت نہیں رہتی۔ وہ فرماتے ہیں:
أَنَّ النَّهْيَ عَنِ الثَّلَاثِ إِذَا كَانَ يَقْعُدُ لِلتَّشَهُّدِ الْأَوْسَطِ لِأَنَّهُ يُشْبِهُ الْمَغْرِبَ وَأَمَّا إِذَا لَمْ يَقْعُدْ إِلَّا فِي آخِرِهَا فَلَا يُشْبِهُ الْمَغْرِبَ وھو جمع حسن
(سبل السلام: ج۲ص۷)
مرفوع حدیث کی تائید
فتح الباری (جلد ۱ ص۵۳۶) میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ تین رکعت وتر صرف آخری تشہد کے ساتھ پڑھتے تھے۔
امام محمد بن اسماعیل الامیر ارقام نے بھی یہی وضاحت فرمائی کہ:
’’کان رسول اللہ ﷺ یوتر بثلاث لا یجلس الا فی آخرھن‘‘
(سبل السلام: ج۲ص۷)
یعنی رسول اللہ ﷺ تین رکعت وتر صرف ایک تشہد سے پڑھتے اور درمیانی تشہد میں نہیں بیٹھتے۔
صحابہ کرام کے آثار
✿ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت:
صحیح مسلم (ج۱ ص۲۰۴) میں ہے کہ آپ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں چار چار رکعتیں پڑھتے اور آخر میں تین رکعت پڑھتے تھے۔
✿ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول:
"الوِترُ کصَلوة المغْرِبِ اِلَّا انه لا یقعد الا فِی الثَّالِثَة”
(المحلی لابن حزم، ج۳ص۴۶)
سلف صالحین کا عمل
✿ حضرت عمر فاروقؓ: تین وتر ایک تشہد کے ساتھ پڑھتے
(عون المعبود: ج۱ ص۵۳۵)
✿ حضرت طاؤس، عطاء بن ابی رباح اور ایوبؒ: تین رکعت وتر ایک ہی تشہد سے پڑھتے تھے۔
تطبیق کا دوسرا انداز
کچھ محدثین کے نزدیک تین رکعت کو دو سلام کے ساتھ پڑھنا بہتر ہے۔
امام نوویؒ فرماتے ہیں:
’’جب تین رکعت پڑھنے کا ارادہ ہو تو افضل یہ ہے کہ دو سلام ہوں، کیونکہ بہت سی صحیح احادیث اسی پر دلالت کرتی ہیں۔‘‘
(شرح مہذب)
دلائل:
1. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ شفع اور وتر کے درمیان سلام کے ساتھ فاصلہ کرتے تھے۔
(تلخیص الحبیر: ج۲ ص۱۶)
2. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی یہی بیان کرتی ہیں۔
(مسند احمد)
امام ترمذیؒ بھی فرماتے ہیں کہ بعض صحابہ اور تابعین دو رکعت سلام کے ساتھ ختم کر کے تیسری الگ پڑھتے تھے۔ (جامع ترمذی مع التحفة الاحوذی)
خلاصہ اقوال
◈ بعض صحابہ کرام صرف ایک رکعت پر اکتفا کرتے تھے۔
◈ بعض تین رکعت دو سلام سے پڑھتے تھے۔
◈ بعض تین رکعت ایک سلام سے پڑھتے تھے۔
مرفوع احادیث بھی مختلف ہیں۔ سب طریقے ثابت ہیں اور جائز ہیں۔
تاہم محققین اور محقق محدثین کے نزدیک بہتر یہ ہے کہ:
✿ یا تو تین رکعت وتر دو سلام کے ساتھ پڑھے جائیں۔
✿ یا پھر تین رکعت ایک ہی تشہد کے ساتھ پڑھی جائیں تاکہ مغرب کی نماز سے مشابہت نہ ہو۔
شیخ محمد محدث گوندلویؒ کا فتویٰ
انہوں نے وضاحت کی کہ رسول اللہ ﷺ سے تین رکعت وتر دونوں طرح ثابت ہیں:
➊ ایک سلام اور ایک تشہد کے ساتھ۔
➋ دو رکعت کے بعد سلام پھیر کر تیسری الگ۔
اور انہی میں سے دوسری صورت زیادہ بہتر ہے تاکہ مغرب سے مشابہت نہ ہو۔
نتیجہ
◈ وتر تین رکعت ہیں۔
◈ ایک سلام اور ایک تشہد کے ساتھ پڑھنا جائز ہے۔
◈ دو رکعت کے بعد سلام دے کر تیسری الگ پڑھنا افضل ہے۔
◈ صرف ایک رکعت وتر پڑھنا بھی جائز ہے۔
◈ سب صورتیں سنت اور سلف سے ثابت ہیں۔