وتر میں قنوت رکوع سے پہلے کرنی چاہیے یا رکوع کے بعد؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

وتر میں قنوت رکوع سے پہلے کرنی چاہیے یا رکوع کے بعد؟

جواب:

قنوت رکوع سے پہلے اور بعد دونوں طرح ثابت ہے۔
❀ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر ادا فرماتے، پہلی رکعت میں سورت اعلیٰ، دوسری میں کافرون اور تیسری میں سورت اخلاص پڑھتے۔ وتروں کے بعد تین مرتبہ سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ پڑھتے، تیسری بار آواز لمبی کرتے۔“
(سنن النسائي: 1700، سنن ابن ماجه: 1182، وسنده صحيح)
سنن دارقطنی (1644) میں سفیان ثوری کی فطر بن خلیفہ (ثقہ) نے متابعت کی ہے۔
❀ امام ابن مندہ رحمہ اللہ کی التوحید (191/2، وسنده حسن) اور امام بیہقی رحمہ اللہ کی سنن کبری (38/3-39) میں یہ الفاظ بھی ہیں: سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أقول إذا فرغت من قراءتي فى الوتر…
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھلایا کہ قرآت وتر سے فارغ ہو کر یہ دعا پڑھوں۔“
❀ بالکل اسی سند کے ساتھ مستدرک حاکم (173/3) میں یہ الفاظ ہیں:
علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم فى وتري إذا رفعت رأسي، ولم يبق إلا السجود
”مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلایا کہ جب میں رکوع سے سر اٹھاؤں اور صرف سجدے باقی رہ جائیں تو یہ دعا پڑھوں۔“
معلوم ہوا کہ قنوت وتر رکوع سے پہلے اور بعد دونوں طرح پڑھی جا سکتی ہے۔
❀ اسود بن یزید رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
كان عبد الله لا يقنت فى شيء من الصلوات إلا فى الوتر قبل الركعة.
”سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وتر کے علاوہ کسی نماز میں رکوع سے پہلے قنوت نہیں پڑھتے تھے۔“
(المعجم الكبير للطبراني: 238/9، ح: 9165، وسنده صحيح)
❀ اسماعیل بن عبد الملک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إنه كان يقنت فى الوتر قبل الركوع.
”سعید بن جبیر رحمہ اللہ قنوت وتر میں رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 302/2، وسنده صحيح)
بعض سلف رکوع کے بعد قنوت کرتے تھے۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے وتروں میں رکوع کے بعد قنوت وتر اور قنوت نازلہ پڑھی۔
(صحيح ابن خزيمة: 1100، وسنده صحيح)
رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دعا کرنا دونوں طرح کی روایات موجود ہیں، لہذا اس مسئلے میں سختی درست نہیں، یہ اجتہاد کا معاملہ ہے، اسے اجتہاد تک ہی رکھنا چاہیے، باعث نزاع نہیں بنانا چاہیے۔
اس بارے میں کچھ ضعیف روایات:
① علقمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے:
إن ابن مسعود وأصحاب النبى صلى الله عليه وسلم كانوا يقنتون فى الوتر قبل الركوع.
”سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ وتر میں رکوع سے پہلے قنوت کرتے تھے۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 302/2)
سند ”ضعیف “ہے۔ ابراہیم نخعی کا عنعنہ ہے۔
② اسود بن یزید رحمہ اللہ سے مروی ہے:
إن عمر قنت فى الوتر قبل الركوع.
”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھی۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 301/2-302)
سند ابراہیم نخعی کے عنعنہ کی وجہ سے ”ضعیف “ہے۔
③ اسود رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
كان عبد الله يقرأ فى آخر ركعة من الوتر ﴿قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ﴾، ثم يرفع يديه فيقنت قبل الركعة.
”سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وتر کی آخری رکعت میں سورت اخلاص پڑھتے، پھر رکوع سے پہلے ہاتھ اٹھا کر قنوت پڑھتے۔“
(المعجم الكبير للطبراني: 2327/9، ح: 9425)
سند ”ضعیف “ہے، لیث بن ابی سلیم جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف“ اور ”سیء الحفظ“ ہے۔
④ سائب رحمہ اللہ سے مروی ہے:
إن عليا كان يقنت فى الوتر بعد الركوع.
”سیدنا علی رضی اللہ عنہ قنوت وتر رکوع کے بعد کرتے تھے۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 302/2)
سند ضعیف ہے، شریک بن عبد اللہ ”مدلس “ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی۔
⑤ ابو عبد الرحمن رحمہ اللہ کہتے ہیں:
إن عليا كان يقنت فى الوتر بعد الركوع.
”سیدنا علی رضی اللہ عنہ قنوت وتر رکوع کے بعد کرتے تھے۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 302/2)
سند ”ضعیف“ ہے۔ عطاء بن سائب مختلط ہے اور ہشیم بن بشیر نے اس سے اختلاط کے بعد روایت لی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے