”وتر حق اور واجب ہے“ روایت کی استنادی حیثیت
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

حدیث: ”وتر حق اور واجب ہے“ کی استنادی حیثیت کیا ہے؟

جواب:

بعض لوگ وتر کے وجوب پر کچھ دلائل پیش کرتے ہیں، ان کی علمی و تحقیقی حیثیت کیا ہے، ملاحظہ ہو:
① سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الوتر حق، فمن لم يوتر فليس منا، الوتر حق، فمن لم يوتر فليس منا، الوتر حق، فمن لم يوتر فليس منا.
”تین بار فرمایا: وتر حق ہے، جو وتر نہیں پڑھتا، وہ ہمارے طریقہ پر نہیں۔“
(مسند أحمد: 357/5، سنن أبي داود: 1419، المستدرك للحاكم: 305/1)
❀ تاریخ بغداد (175/5) میں الوتر واجب کے الفاظ ہیں۔
سند ”ضعیف “ہے، عبید اللہ بن عبد اللہ ابو منیب عتکی (حسن الحدیث) کی عبد اللہ بن بریدہ سے بیان کردہ روایات منکر ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ما أنكر حديث حسين بن واقد وأبي المنيب عن ابن بريدة.
”حسین بن واقد اور ابو منیب کی روایت عبد اللہ بن بریدہ سے حد درجہ منکر ہوتی ہے۔“
(العلل ومعرفۃ الرجال : 497)
یہ بھی انہی منکر روات سے ہے۔
❀ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عنده مناكير.
”اس نے بہت سی منکر روایات بیان کر رکھی ہیں۔“
(التاريخ الكبير: 388/5)
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے مذکورہ روایت کو ان کی منکر روایات میں شمار کیا ہے۔
(الكامل في ضعفاء الرجال: 537/5)
حاصل یہ ہے کہ عبید اللہ بن عبد اللہ ابو منیب کی جس روایت کو محدثین منکر قرار دیں گے، وہ ”ضعیف“ ہوگی۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
هذا حديث لا يصح.
”یہ روایت ثابت نہیں۔“
(العلل المتناهية في الأحاديث الواهية: 765)
دوسری بات یہ ہے کہ اس سے وجوب وتر ثابت نہیں ہوتا۔
❀ حافظ بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اکثر محدثین کہتے ہیں کہ یہ ترغیب دلانے اور وتر پر ابھارنے کے لیے کہا گیا، ’ہمارے طریقے پر نہیں‘ سے مراد ہے کہ جو وتر سے بے رغبتی کرتے ہوئے ایسا کرے گا، وہ ہمارے طریقے پر نہیں۔ وجوب مراد نہیں۔“
(شرح السنة: 103/4)
② سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الوتر حق واجب، فمن شاء أوتر بثلاث، فليوتر، ومن شاء أن يوتر بواحدة، فليوتر بواحدة.
”وتر حق اور ثابت ہے، جو چاہے تین پڑھے اور جو چاہے ایک پڑھے۔“
(سنن الدارقطني: 22/2)
سند ”ضعیف“ ہے، امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ اور امام زہری رحمہ اللہ دونوں مدلس ہیں، سماع کی تصریح ثابت نہیں۔
دوسرے یہ کہ وجوب وتر کے قائلین کو یہ روایت مفید نہیں، اس میں ایک وتر کا بھی ذکر ہے، جس کے وہ قائل نہیں۔ نیز واجب ’ثابت‘ کے معنی میں ہے۔
③ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الوتر واجب على كل مسلم.
”وتر ہر مسلمان پر واجب ہے۔“
(مسند البزار: 1637، نصب الراية للزيلعي الحنفي: 113/2)
سند سخت ”ضعیف“ ہے:
① جابر بن یزید جعفی جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف “ہے۔
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ضعفه الجمهور.
”جمہور نے ضعیف کہا ہے۔“
(طبقات المدلسین: 53)
❀ نیز لکھتے ہیں:
ضعيف رافضي.
”ضعیف اور رافضی ہے۔“
(تقریب التهذيب: 878)
② ابراہیم نخعی ”مدلس “ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی۔
④ سیدنا خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله عز وجل قد أمدكم بصلاة، وهى خير لكم من حمر النعم، وهى الوتر، فجعلها لكم فيما بين العشاء إلى طلوع الفجر.
”اللہ تعالیٰ نے آپ کے اعمال میں ایک اور نماز کا اضافہ کیا ہے، جو آپ کے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے اور وہ نماز وتر ہے، اس کا وقت عشا اور طلوع فجر کے درمیان ہے۔“
(سنن أبي داود: 1418، سنن الترمذي: 455، سنن ابن ماجه: 1168)
سند انقطاع کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے، عبد اللہ بن ابو مرہ زوفی کا سیدنا خارجہ بن حذافہ عدوی رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے۔
❀ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يعرف لإسناده سماع بعضهم من بعض.
”سند کے راویوں کا ایک دوسرے سے سماع نہیں۔“
(التاريخ الكبير: 203/3)
❀ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إسناد منقطع، ومتن باطل.
”سند منقطع اور متن باطل ہے۔“
(الثقات: 45/5)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم يصح.
”یہ روایت ثابت نہیں۔“
(میزان الاعتدال: 501/2)
⑥ عبد الرحمن بن رافع تنوخی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ شام آئے، تو انہیں معلوم ہوا کہ شامی وتر نہیں پڑھتے، انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اہل شام وتر نہیں پڑھتے؟ معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: کیا وتر واجب ہے؟ کہا: جی ہاں! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ میرے رب نے مجھ پر ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے، وہ نماز وتر ہے، اس کا وقت عشا اور طلوع فجر کے درمیان ہے۔“
(زوائد مسند الإمام أحمد: 242/5)
سند سخت ”ضعیف “ہے:
① عبید اللہ بن زحر جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف “ہے۔
② عبد الرحمن بن رافع تنوخی بھی جمہور کے نزدیک ”ضعیف “ہے۔
③ عبد الرحمن بن رافع تنوخی نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
لم يدرك معاذا.
”اس نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔“
(تنقیح التحقيق: 213/1)
⑦ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
ما أحب أني تركت الوتر، ولو أن لي حمر النعم.
”میں وتر چھوڑنا پسند نہیں کرتا، اگرچہ مجھے سرخ اونٹ مل جائیں۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 296/2)
سند ”ضعیف “ہے۔
① سفیان ثوری کا عنعنہ ہے۔
② مخبر مجہول ہے۔
③ وجوب وتر پر دلالت نہیں کرتا۔
ثابت ہوا کہ وتر کی وجوب پر دلالت کرنے والی تمام مرفوع اور موقوف روایات ضعیف و غیر ثابت ہیں۔ اہل علم نے ان پر جرح کی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے