والدین کی نافرمانی اور امامت کا حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ، جلد 1، ص 218-220

سوال

ایک امام مسجد اپنے والدین کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے، انہیں مارتا اور گالیاں دیتا ہے۔ اگر وہ معافی مانگ لے تو کیا وہ امامت کے لائق ہو سکتا ہے؟

جواب

والدین کے ساتھ بدسلوکی اور ان کی نافرمانی شریعت میں کبیرہ گناہ شمار ہوتی ہے، اور ایسا شخص جو اس گناہ کا مرتکب ہو، امامت کے لائق نہیں ہے، جب تک کہ وہ صدق دل سے توبہ نہ کرے۔ اگر وہ امام والدین سے معافی مانگ لے، اور سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرے، اور آئندہ ان کی اطاعت کا پختہ ارادہ کر لے، تو اس کی امامت جائز ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:

"اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗ”
(ترجمہ: گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔)

تاہم، اگر امام اپنی توبہ میں مخلص نہیں ہے اور والدین کے ساتھ بدسلوکی کا سلسلہ جاری رکھتا ہے، تو اسے فوراً امامت سے ہٹا دینا چاہیے۔

حوالہ: (ابو سعید محمد شرف الدین، مدرسہ سعیدیہ دہلی)
(ابو الفضل عبد المنان، ایڈیٹر اہل حدیث گزٹ دہلی)
(محمد یونس، مدرس اول حضرت میاں صاحب دہلی)
(عبید اللہ رحمانی، مدرس مدرسہ رحمانیہ دہلی)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1