والدین بچیوں کو پردہ کا حکم دیں جب وہ بالغ ہو جائیں
یہ اقتباس شیخ جاوید اقبال سیالکوٹی کی کتاب والدین اور اُولاد کے حقوق سے ماخوذ ہے۔

والدین بچیوں کو پردہ کا حکم دیں جب وہ بالغ ہو جائیں

کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
❀ ﴿‏ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾
”عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادر لٹکایا کریں۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جاتی ہے پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ “
(33-الأحزاب:59)
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
⋆ امر الله نساء المؤمنين إذا خرجن من بيوتهن فى حاجة أن يغطين وجوههن من فوق رؤوسهن بالجلابيب ويبدين عينا واحدة
”اللہ کریم نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے وقت اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے چہرے ڈھانپ لیں اپنے سروں کے اوپر کی جانب سے اور ایک آنکھ ظاہر کریں راستہ دیکھنے کے لیے۔ “
تفسير ابن كثير جلد 3 ص 569۔
فائدہ: جلابيب، جلباب کی جمع ہے جو ایسی بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا بدن ڈھک جائے۔ اپنے اوپر چادر لٹکانے سے مراد اپنے چہرے پر اس طرح گھونگھٹ نکالنا ہے کہ جس سے چہرے کا بیشتر حصہ بھی چھپ جائے اور نظریں جھکا کر چلنے سے اسے راستہ بھی نظر آتا جائے۔ پاک وہند یا دیگر اسلامی ممالک میں برقع کی جو مختلف صورتیں ہیں عہد رسالت میں یہ برقعے عام نہیں تھے پھر بعد میں معاشرت میں وہ سادگی نہیں رہی جو عہد رسالت اور صحابہ و تابعین کے دور میں تھی۔ عورتیں نہایت سادہ لباس پہنتی تھیں۔ بناؤ سنگھار اور زیب وزینت کے اظہار کا کوئی جذبہ ان کے اندر نہیں ہوتا تھا اس لیے ایک بڑی چادر سے بھی پردے کے تقاضے پورے ہو جاتے تھے۔
لیکن بعد میں یہ سادگی نہیں رہی۔ اس کی جگہ متکبر اور زینت نے لے لی اور عورتوں کے اندر زرق برق لباس اور زیورات کی نمائش عام ہو گئی۔ جس کی وجہ سے پردہ کرنا مشکل ہو گیا اور اس کی جگہ مختلف انداز کے برقعے عام ہو گئے۔ گو اس سے بعض دفعہ عورت کو بالخصوص سخت گرمی میں کچھ دقت محسوس ہوتی ہے لیکن یہ ذرا سی تکلیف شریعت کے تقاضوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ تاہم جو عورت برقعے کے بجائے پردے کے لیے بڑی چادر استعمال کرتی ہے اور پورے بدن کو ڈھانکتی اور چہرے پر صحیح معنوں میں گھونگھٹ نکالتی ہے وہ یقیناً پردے کے حکم کو بجا لاتی ہے۔
کیونکہ برقعہ ایسی لازمی چیز نہیں ہے جسے شریعت نے پردے کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ لیکن آج کل عورتوں نے چادر کو بے پردگی اختیار کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے پہلے وہ برقعے کی جگہ چادر اوڑھنا شروع کرتی ہیں پھر چادر بھی غائب ہو جاتی ہے۔ صرف دوپٹہ رہ جاتا ہے اور بعض عورتوں کے لیے اس کا لینا بھی گراں ہوتا ہے۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ اب برقعے کا استعمال ہی صحیح ہے کیونکہ جب سے برقعے کی جگہ چادر نے لی ہے۔ بے پردگی عام ہو گئی ہے بلکہ عورتیں نیم برہنگی پر بھی فخر کرنے لگی ہیں۔
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ بہر حال اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یتیم بیویوں، بیٹیوں اور عام مومن عورتوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت پردے کا حکم دیا گیا ہے جس سے واضح ہے کہ پردے کا حکم علما کا ایجاد کردہ نہیں ہے۔ جیسا کہ آج کل بعض لوگ باور کراتے ہیں یا اس کو قرار واقعی اہمیت نہیں دیتے، بلکہ یہ اللہ کا حکم ہے جو قرآن کریم کی نص سے ثابت ہے اس سے اعراض، انکار اور بے پردگی پر اصرار کفر تک پہنچا سکتا ہے۔ (احسن البیان)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے