سوال
شیخ صاحب!
تفسیر ابن کثیر، جلد نمبر 3، صفحہ 216، سورہ بنی اسرائیل میں واقعہ معراج کے حوالے سے ایک قصہ درج ہے:
"بیت المقدس کا لاٹ پادری، جو شاہ روم کی مجلس میں بڑی عزت کے ساتھ اس کے پاس بیٹھا تھا، فوراً بول اٹھا کہ یہ بالکل سچ ہے، مجھے اس رات کا علم ہے۔ قیصر نے تعجب سے اس کی طرف دیکھا اور ادب سے پوچھا، جناب کو کیسے معلوم ہوا؟
اس نے کہا: سنیے! میری عادت تھی کہ جب تک مسجد کے تمام دروازے خود بند نہ کر لوں، سوتا نہ تھا۔ اس رات بھی میں دروازے بند کرنے کھڑا ہوا، سب دروازے بند کر دیے، مگر ایک دروازہ بند نہ ہو سکا۔
میں نے بہت زور لگایا، مگر دروازہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔ میں نے آدمیوں کو آواز دی، وہ آئے اور سب نے مل کر زور لگایا، لیکن ناکام رہے۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہم کسی پہاڑ کو سرکانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ میں نے بڑھئی بلوائے، وہ بھی ناکام رہے۔
چنانچہ ہم نے طے کیا کہ دروازہ صبح بند کریں گے، اس رات وہ کھلا رہا۔ صبح میں دروازے کے پاس گیا تو دیکھا کہ اس کے قریب پتھر کی چٹان میں ایک سوراخ ہے، جس سے معلوم ہوتا تھا کہ رات کو کسی نے یہاں جانور باندھا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ آج کی رات یہ مسجد کسی نبی کے لیے کھلی رکھی گئی تھی۔ اس نبی نے یہاں ضرور نماز ادا کی ہے۔”
سوال:
اس واقعہ کے بارے میں تفسیر ابن کثیر میں آپ کی رائے درج نہیں، کہ آپ کے نزدیک یہ واقعہ صحیح، حسن یا ضعیف ہے؟ براہ کرم اس پر واضح فتویٰ دیں۔
(سائل: ابو ابراہیم خرم ارشاد محمدی، دولت نگر)
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تفسیر ابن کثیر میں یہ واقعہ حافظ ابو نعیم الاصبہانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب دلائل النبوۃ کے حوالے سے درج کیا گیا ہے، درج ذیل سند کے ساتھ:
"عن محمد بن كعب القرظي قال بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم دحية الكلبي إلى قيصر”
(جلد 4، صفحہ 115، الاسراء، اور ابن کثیر کا تبصرہ: "فائدہ حسنۃ جلیلۃ”)
لیکن یہ روایت واقدی کی وجہ سے سخت ضعیف و مردود ہے۔ مزید چند وجوہات درج ذیل ہیں:
1۔ محمد بن عمر بن واقد الاسلمی الواقدی:
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"کتب الواقدی کذب”
یعنی واقدی کی کتابیں جھوٹ پر مبنی ہیں۔
(کتاب الجرح والتعدیل 8/21، سند صحیح)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:
"كان الواقدي يقلب الاحاديث يلقى حديث ابن اخى الزهري على معمر ونحو هذا”
یعنی واقدی احادیث کو الٹ پلٹ دیتا تھا، اور دوسرے راویوں پر من گھڑت احادیث ڈال دیتا تھا۔
امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ:
"كما وصف وأشد لأنه عندي ممن يضع الحديث”
یعنی جیسا کہا گیا وہی سچ ہے، بلکہ اس سے بھی سخت ہے کیونکہ میرے نزدیک واقدی ان لوگوں میں سے ہے جو حدیثیں گھڑتے ہیں۔
(کتاب الجرح والتعدیل 8/21، سند صحیح)
امام یحییٰ بن معین نے فرمایا:
"لا يكتب حديث الواقدي ليس بشيء”
یعنی واقدی کی روایت نہ لکھی جائے، وہ کچھ بھی نہیں۔
امام بخاری، امام مسلم، امام ابو حاتم الرازی، امام نسائی رحمہم اللہ نے فرمایا:
"متروک الحدیث”
یعنی واقدی کی روایت ناقابلِ اعتبار ہے۔
(کتاب الضعفاء للبخاری: 344، الکنی للامام مسلم ص65، الجرح والتعدیل 8/21، کتاب الضعفاء للنسائی: 531)
امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"والكذابون المعروفون بوضع الحديث على رسول الله صلى الله عليه وسلم أربعة…”
یعنی رسول اللہ ﷺ پر حدیثیں گھڑنے والے چار مشہور جھوٹے ہیں:
1. ابن ابی یحییٰ (مدینہ)
2. واقدی (بغداد)
3. مقاتل بن سلیمان (خراسان)
4. محمد بن سعید المصلوب (شام)
(الضعفاء ص265، رسالہ صغیرہ)
حافظ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے بھی واقدی پر سخت جرح کی۔
(کتاب المجروحین 2/290، دوسرا نسخہ 303)
امام علی بن عبد اللہ المدینی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:
"الواقدي يُرَكِّب الأسانيد”
یعنی واقدی سندیں گھڑتا تھا۔
(تاریخ بغداد 3/16، ت939، سندہ صحیح)
چند علماء نے واقدی کی توثیق بھی کی ہے، لیکن جمہور محدثین کی جرح کے مقابلے میں یہ رائے مردود ہے۔
حافظ ہیثمی اور ابن الملقن نے کہا:
"ضعفہ الجمہور”
یعنی جمہور محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(مجمع الزوائد 3/255، البدر المنیر 5/324)
2۔ دلائل النبوۃ میں روایت کی غیر موجودگی:
ابو نعیم کی کتاب دلائل النبوۃ میں یہ روایت موجود نہیں، اور نہ ہی ابو نعیم سے واقدی تک کوئی معتبر سند پائی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ روایت بے سند ہے۔
3۔ ابو حفص عمر بن عبد اللہ المدنی:
یہ راوی بھی ضعیف ہے، اور جمہور محدثین کے نزدیک قابلِ قبول نہیں۔
حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہما اللہ نے کہا:
"ضعیف”
(تلخیص المستدرک 1/495، ح1820، تقریب التہذیب: 4934)
4۔ محمد بن کعب القرظی رحمۃ اللہ علیہ:
یہ تابعی ہیں، اور ان کی روایت مرسل (منقطع) شمار کی جاتی ہے، جو روایت کو مزید کمزور کر دیتی ہے۔
خلاصہ تحقیق:
یہ روایت سخت ضعیف اور مردود ہے، لہٰذا بغیر اس کی سند کی تحقیق کے بیان کرنا جائز نہیں۔
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اگرچہ اسے تفسیر میں درج کیا، لیکن اس کی سند کا کچھ حصہ بھی بیان کر دیا، جس سے اس کی ضعیفی ظاہر ہو جاتی ہے۔
لہٰذا اسے "فائدہ حسنہ جلیلہ” قرار دینا درست نہیں۔
حافظ ابن کثیر اور جلال الدین سیوطی میں فرق یہ ہے کہ:
- ابن کثیر نے روایت کی سند کا کچھ حصہ ذکر کیا۔
- سیوطی نے محمد بن کعب القرظی کے علاوہ پوری سند کو ترک کر کے اسے ابو نعیم کے حوالے سے ذکر کیا۔
(دیکھئے: الخصائص الکبری، جلد 1، صفحات 169-171)
نتیجہ:
روایات کو اصل ماخذ سے تلاش کر کے تحقیق کے بعد ہی بطورِ حجت یا بطورِ رد بیان کرنا چاہیے۔ سیوطی کے بے سند حوالوں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔
وما علینا الا البلاغ
(29 رجب 1433ھ، مطابق 20 جون 2012ء)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب