واقعہ ایلاء
تحریر : فضیلۃ الشیخ مولانا محمد ظفر اقبال الحماد حفظ اللہ

قصہ نمبر 61 :
شاہان ممالک کی یہ حیثیت کہاں؟
——————
حضرت ابو حجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چمڑے کا سرخ لباس پہنے ہیں، بلال رضی اللہ عنہ وضو کا پانی لئے کھڑے ہیں، اور لوگ باہم پیش دستی کر رہے ہیں، چنانچہ جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا استعال کردہ پانی مل جاتا تھا، وہ اس کو مل لیتا تھا اور جسے نہیں ملتا تھا وہ اپنے ساتھی کے ہاتھ سے تری لے لیتا تھا، میں نے بلال کو دیکھا کہ ان کے پاس ایک نیزہ تھا جس کو انہوں نے گاڑ دیا تھا، آخر کار آنخضرت و سرخ کپڑے پہن کر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تہ بند پنڈلیوں سے اونچا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نیزہ کی طرف کھڑے ہوکر نماز پڑھائی اور آدمی اور جانور نیزے کے آگے سے نکل رہے تھے۔
فائدہ:
رات کا وقت، چاند اپنی چاندنی بکھیرنے میں مصروف، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز کی تیاری میں مصروف اور حسینوں کے حسین، اماموں کے امام مصلی امامت پر جلوہ افروز محسوس ہوتا تھا کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ہمہ تن گوش متوجہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت دلربا کو سن رہا ہے۔ فراغت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جھرمٹ میں بیٹھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خدا کے چاند اور زمین و آسمان کے چاند میں تقابل کرنے لگے بھلا ”چہ نسبت خاک را بعالم پاک“ فیصلہ کرلیاکہ اس چاند کو جو چاندنی ملی ہے، ہمارے اس چاند کا صدقہ ہے، ورنہ یہ بے چارہ نور سے محروم رہ جاتا اور مجھے یہ احساس بھی دامن گیر ہے کہ اپنے آپ کو شہنشاه، بادشاہ اور صدر کہلانے والے اپنے بارے میں اس قدر خوش فہمی کا شکار کیوں ہیں ؟ کاش ! کوئی یہ واقعہ بھی انہیں سنائے۔

قصہ نمبر 62 :
منبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
——————
ابوحازم بن دینار کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ لوگوں میں باہم اختلاف ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر کس لکڑی کا بنا ہوا تھا ؟ چنانچہ حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سب لوگ حاضر ہوئے اور اس کے متعلق دریافت کیا، حضرت سہل بولے خدا کی قسم ! میں خوب جانتا ہوں کہ منبر کس لکڑی کا بنا ہوا تھا جس روز پہلی بار منبر مسجد میں لا کر رکھا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اول مرتبہ اس پر رونق افروز ہوئے تو میں دیکھ رہا تھا، واقعہ یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں عورت کو کہلا بھیجا کہ اپنے بڑھئی غلام کو میرے پاس بھیج دو تا کہ میرے لئے وہ ایک منبر تیار کردے جس پر بیٹھ کر لوگوں کے سامنے میں خطبہ پڑھا کروں، حسب الحکم اس عورت نے غلام کو منبر بنانے کا حکم دیا، غلام نے غابہ نامی جنگل کی جھاؤ کی لکڑی سے منبر تیار کیا اور عورت کو لا کر دے دیا اس عورت نے منبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نصب کرنے کا حکم دیا اور حسب الامر اس کو ایک جگہ رکھ دیا گیا، اس
کے بعد میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر تشریف لے جا کر تکبیر کہی اور رکوع کیا پھر منبر سے اتر کر منبر کی جڑ کے پاس سجدہ کیا پھر دوبارہ منبر پر تشریف لے گئے جب نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا لوگوں میں نے یہ فعل اس لئے کیا کہ تم میری پیروی کرو اور میری نماز سیکھ لو۔ [بخاري شريف : 370، 437، 875، 1988، 2430]
فائدہ:
بعض روایات کے مطابق اس عورت نے خود فرمائش کی تھی کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اجازت عطا فرما دیں تو میں اپنے غلام سے آپ کیلئے ایک منبر بنوانا چاہتی ہوں بہرحال! واقعہ کچھ بھی ہو، مجھے تو اس ”تنے“ کی قسمت پر رشک آتا ہے جو اس منبر کی تیاری سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے سہارے کا سبب بنتا تھا، نبر بنے کے بعد کھجور کے اس تنے نے آقا کی جدائی کو برداشت کرنے کا حوصلہ اپنے اندر نہ پایا اور چھوٹے بچوں کی طرح بلک بلک کر رونا شروع کر دیا، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے اس کے پاس تشریف لائے، سینے سے لگایا اور تسلی دی تب کہیں جا کر اس کا رونا دھوناختم ہوا، آپ کیا سمجھے ؟ یہ کوئی انسان تھا ؟ ہرگز نہیں ! کھجور کا ایک بے جان اور بے زبان تنا لیکن اس سے اپنے آقا کی جدائی برداشت نہ ہو سکی، کیا ہم انسان ہوتے ہوئے اپنے آقا کی سنتوں سے اعراض کر کے بے جان چیزوں سے بھی اپنے آپ کوگیا گزرا ہوا ثابت نہیں کررہے ؟ کیا ہم شعور وآگہی کی ابجد سے بھی ناواقف ہو گئے ؟ کیا ہم میں کھجور کے تنے جیسا احساس بھی نہیں رہا ؟

قصہ نمبر 63 :
واقعہ ایلاء
——————
حضرت انسان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلی یا مونڈھے کا گوشت چھل گیا، اس زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے ایک مہینہ کا ایلاء کیا تھا (یعنی قسم کھالی تھی کہ ایک ماہ تک ان کے پاس نہیں جاؤں گا ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بالا خانہ پر رہنے لگے، جس کی سیڑھیاں کھجور کی تھیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب عیادت کو آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بیٹھ کر نماز پڑھائی اور وہ لوگ کھڑے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا کہ امام اس لئے ہوتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے؟ جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم کو بھی رکوع کرنا چاہئے اور جب وہ سجدہ کرے تو تم کو سجدہ کرنا چاہئے، اگر وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ اس کے بعد آپ نے انتیسویں تاریخ کو اس بالا خانے سے اتر آئے، لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے تو ایک ماہ کی قسم کھائی تھی آپ نے جواب میں فرمایا کہ مہینہ کی 29 کا بھی ہوتا ہے۔ [بخاري شريف :371، 657، 699 700، 772، 1063، 1812وغيره]
فائده:
سیرت اور حدیث کی کتابوں میں یہ واقعہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اسے ”واقعه ایلاء“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس کی مزید تفصیل بخاری شریف ہی سے ملاحظہ ہو۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے مدت تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بات دریافت کرنے کی آرزو رہی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں وہ دو بیویاں کون سی تھیں جن کے متعلق الله تعالی نے ”ان تتوبا الى الله فقد صغت قلوبكما“، فرمایا تھا۔ لیکن ہیبت کے مارے میں دریافت نہ کرسکتا تھا یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بار حج کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا (واپسی میں) حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک طرف کو (راستے میں) مڑ گئے، میں بھی ان کے ساتھ مڑ گیا اور ایک لوٹا ساتھ لیتا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رفع حاجت کر کے آئے، میں نے ہاتھوں پر پانی ڈالا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وضو کیا، اس وقت میں نے کہا امیر المومنین ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں وہ دو عورتیں کون تھیں جن کے حق میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے ”ان تتوبا الى الله فقد صغت قلوبكما“، فرمایا ابن عباس ! تعجب ہے (تم کو یہ بات بھی معلوم نہیں) وہ دونوں عائشہ رضی اللہ عنہا اور حفصہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کرنی شروع کی۔
فرمایا میں اور میرا ایک انصاری ہمسایہ بنی امیہ کے محلہ میں عوالی مدینہ میں رہتے تھے اور باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے، ایک روز وہ جاتا تھا اور ایک روز میں جاتا تھا، میں جب جاتا تھا تو وحی وغیرہ جو واقعات اس دن کے ہوتے تھے، ان کی خبر اس کو آکر دیتا تھا اور وہ جانتا تھا تو وہ بھی ایسا ہی کرتا تھا، ہم چونکہ گروہ قریش سے تعلق رکھتے تھے اس لئے عورتوں پر غالب رہتے تھے، لیکن انصار کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ان کی عورتیں مردوں پر غالب ہیں، انصار کی عورتوں کی دیکھا دیکھی ہماری عورتیں بھی انہی کی عادات و خصائل اختیار کرنے لگیں۔
ایک روز میں اپنی بیوی پر چلایا، اس نے لوٹ کر مجھے جواب دیا، مجھے اس کا جواب دینا نا گوار ہوا، وہ کہنے لگی تم کو میرا جواب دینا کیوں نا گوار گزرا ؟ خدا کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہیں اور بعض عورتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دن دن بھر علیحدہ رہتی ہیں ( بات نہیں کرتیں) مجھے یہ بات سن کر ایک خوف پیدا ہوا اور میں نے اس سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے جس نے ایسا کیا وہ خراب ہوئی۔
اس کے بعد میں اپنے سب کپڑے پہن کر گیا اور اپنی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے جا کر کہا کیا تم میں سے کوئی عورت دن دن بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض رکھتی ہے ؟ حفصہ نے کہا ہاں! میں نے کہا تو خراب ہوئی، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کر کے خدا
کے غضب سے بے خوف رہ سکتی ہو ؟ تو ہلاک ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ نہ مانگا کر، اور نہ کسی چیز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تکرار اور مقابلہ کیا کر، اور نہ کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ترک کلام کیا کر باقی جس چیز کی تجھ کو ضرورت ہو، مجھ سے طلب کرلیا کر، تجھ کو اس بات سے دھوکا نہ کھانا چاہئے کہ تیری سوکن ( حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی اور تجھ سے زیادہ خوبصورت ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس زمانہ میں ہم باہم گفتگو کیا کرتے تھے کہ غسان کا بادشاہ اپنے گھوڑوں کے نعل بندھوا رہا ہے تا کہ ہم سے جنگ کرے، ایک روز میرا دوست انصاری اپنی باری کے دن گیا اور عشاء کے وقت واپس آ کر میرے دروازہ کو زور زور سے کوٹا اور آواز دی کوئی ہے؟ میں گھبرا کر باہر نکلا، انصاری نے کہا آج ایک بڑا واقعہ ہو گیا، میں نے کہا کیا شاه غسان آگیا؟ کہنے لگا نہیں ! اس سے بھی بڑا اور خوفناک واقعہ ہوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی۔ یہ سن کر فوراً میں نے کہا حفصہ نقصان وخسارہ میں ہوگئی، مجھے تو اس کا پہلے ہی سے خطرہ تھا۔ اس کے بعد میں کپڑے پہن کر گیا اور فجر کی نماز
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی، نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے بالا خانہ پر چلے گئے جہاں گوشہ خلوت میں رہتے تھے اور میں حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر چلا گیا۔
حفصہ رضی اللہ عنہا رورہی تھیں میں نے کہا کیوں روتی ہے؟ کیا میں نے تجھ کو پہلے سے متنبہ نہیں کر دیا تھا ؟ کیا تم سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی ؟ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا مجھے نہیں معلوم ! رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم خود سامنے والے بالا خانہ میں گوشہ پسند ہو گئے ہیں۔ میں وہاں سے نکل کر منبر کے پاس آیا منبر کے آس پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے جن میں سے بعض آدمی رورہے تھے، میں بھی ان کے ساتھ تھوڑی دیر تک بیٹھا رہا، لیکن تشویش غالب ہوئی تو اس بالا خانہ کے پاس آیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے، میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حبشی غلام سے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے باریاب ہونے کی اجازت طلب کرو، غلام نے اندر جا کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کر دیا، لیکن تھوڑی دیر کے بعد واپس آ کر جواب دیا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم
سے عرض کیا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا، میں یہ سن کر لوٹ آیا اور انہی لوگوں کے پاس آ کر بیٹھ گیا جو منبر کے پاس بیٹھے تھے لیکن پھر تشویش غالب ہوئی تو جاکر غلام سے کہا کہ عمر کے باریاب ہونے کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کرو۔ غلام نے اندر جا کر کچھ دیر کے بعد واپس آ کر کہہ دیا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہارا تذکرہ کیا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب بھی خاموش رہے ہیں، میں یہ سن کر لوٹ آیا اور پھر ان لوگوں کے پاس آ کر بیٹھ گیا جو منبر کے پاس بیٹھے تھے لیکن پھر تشویش غالب ہوئی تو جاکر غلام سے کہا میرے بازیاب ہونے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کرو، غلام نے اندر جا کر تھوڑی دیر کے بعد واپس آ کر کہہ دیا کہ میں نے تمہارا تذکرہ کیا تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ میں نے یہ سن کر واپس آنے کے لئے پشت پھیری ہی تھی کہ غلام نے بلایا اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو اجازت دے دی۔
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک ننگی چٹائی پر چمڑے کا تکیہ لگائے لیٹے تھے، تکیہ کے اندر کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی اور بدن مبارک پر چٹائی کے نشان پڑ گئے تھے، میں نے سلام کر کے کھڑے کھڑے عرض کیا یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف نظر اٹھا کر فرمایا نہیں میں نے کہا الله اکبر! پھر میں نے کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانوس بنانے کے لئے عرض کیا یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ فرمایئے ! ہم گروه قریش عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے لیکن جب مدینہ میں آئے تو دیکھا کہ ان لوگوں پر ان کی عورتیں غالب ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر مسکرا دیے، پھر میں نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ فرمایئے ! میں حفصہ کے پاس گیا تھا اور اس سے کہا تھا تجھے اس بات سے دھوکہ نہ کھانا چاہئے کہ تیری سوکن (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی ہیں، یہ سن کر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم دو بار مسکرائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسری بار مسکراتے دیکھ کر میں بیٹھ گیا اور کمرہ کے اندر نظر اٹھا کر دیکھا تو کوئی چیز جازب نظر دکھائی نہ دی، صرف تین کچی کھالیں رکھی تھیں، میں نے عرض کیا کہ یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم الله تعالی سے دعا کریں کہ وہ آپ کی امت کو فراخی عطا فرمائے، کیونکہ ملوک فارس وروم کو تو بڑی دولت عطا ہوئی ہے اور تمام دنیا ان کو مل گئی ہے، حالانکہ وہ خدا کی پرستش کرتے ہی نہیں ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تکیہ لگائے ہوئے فرمایا ابن خطاب ! کیا تجھے کچھ شک ہے، ان لوگوں کو تو دنیوی زندگانی میں تمام عمدہ چیزیں دے دی گئی ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے دعاء مغفرت فرمائیے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس قصہ کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گوشہ نشین ہو گئے تھے کیونکہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضور ا کا راز کہہ دیا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تھا کہ میں ایک ماہ تک ان کے پاس نہ جاؤں گا کیونکہ خدا تعالی نے آپ پر عتاب کیا تھا، اس غم کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک عورتوں
کے پاس نہ جانے کا عہد کر لیا تھا، جب 29 دن گزر گئے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک ماہ کی قسم کھائی تھی اور میں برابر شمار کر رہی ہوں، 29 راتیں گزریں، فرمایا مہینہ 29 دن کا بھی ہوتا ہے چنانچہ وہ مہینہ 29 دن کا ہی تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ اس کے بعد آیت تخبیر نازل ہوئی اور سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے استفسار فرمایا اور فرمایا میں تم سے ایک بات کہتا ہوں لیکن جواب دینے میں جلدی نہ کرنا پہلے اپنے والدین سے پوچھ لو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم واقف تھے کہ میرے والدین مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا کرنے کو پسند نہیں کریں گے، اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ ”اے نبی کی بیویو! اگر تم دنیا کا عیش اور مزا چاہتی ہو تو آؤ میں تم کو بہترین سروسامان دے کر رخصت کر دوں اور اگر تم خدا اور رسول اور روز آخرت کی خواستگار ہو تو خدا تعالی نے نیک عورتوں کے لئے بہترین سامان تیار کر ہی رکھا ہے “ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس معاملہ میں میں اپنے والدین سے صلاح لوں ؟ میں خدا اور رسول اور آخرت کی خواستگار ہوں اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام بیویوں کو اختیار دیا اور سب نے میری طرح جواب دیا۔ [بخاري شريف :2336، 4629، 4631، 4895، 492، 555، 6829، 6835]
فائدہ:
اس واقعے کے ضمن میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ ازواج مطہرات نے خرچ کی تنگی کا شکوہ کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نان و نفقہ میں اضافہ کا مطالبہ کیا تھا لیکن مجھے ان کی رائے سے کبھی اتفاق نہیں ہوسکا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اور خرچ کی تنگی کی شکایت ؟ بالخصوص جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سال کے آغاز ہی میں تمام ازواج مطہرات کو پورے سال کا خرچ دیدیتے تھے۔
اصل بات یہ ہے کہ ازواج مطہرات ’’حریم نبوت‘‘ تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور ہم نشینی ان کیلئے سرمایہ افتخار تھی اور وہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت کچھ سیکھتی تھیں، نماز، روزہ، حج، زکوة، تلاوت، عبادت، معاملات اور معاشرت، اعتقادات واخلاقیات، صبر وشکر، توکل وقناعت، ہمت وشجاعت، عزت نفس اورسخاوت کا سبق انہوں
نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لیا تھا اسی لئے جہاں وہ عبادت کر کے اپنے رب کو راضی کیا کرتی تھیں، وہاں سخاوت میں بھی ان کا ہاتھ تنگ نہ تھا۔
اسی بناء پر بعض مرتبہ ان کے پاس سائل کو دینے کیلئے کچھ بھی نہیں رہتا تھا جس کا احساس انہیں شدت سے ہوتا تھا، اس لئے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سالانہ خرچ میں اضافے کی درخواست کی لیکن چونکہ یہ بظاہر”دنیا‘‘ میں اضافے کی درخواست کی اور پیغمبر دنیا اور اس کے اضانے کا خواہاں نہیں ہوا کرتا اس لئے یہ درخواست طبیعت پر گراں گزری اور ازواج سے یکسو ہو کر ایک مہینے کیلئے ایک بالا خانے میں فروکش ہو گئے۔
غور تو کیجئے ! کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم 29 دن گزرنے کے بعد بالا خانے سے اترتے ہیں، صدیق کی بیٹی صدیقہ کے پاس تشریف لاتے ہیں تو وہ ”ناز “میں آ کر کہتی ہیں کہ آپ نے تو ایک مہینہ کی قسم کھائی تھی اور ابھی مہینہ پورا ہونے میں ایک دن باقی ہے ؟ اب اگر کوئی ”محروم“ یہ کہنا شروع کر دے کہ دیکھو جی ! عائشہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے پاس آنا گوارا نہیں ہوا تو اس کی یہ سوچ غلط اور قابل اصلاح ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کسی ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا کہ ان کا ناز نخرہ اٹھایا اور فرمایا بھئی ! مہینہ کبھی 29 کا بھی تو ہوتا ہے۔

قصہ نمبر 64 :
سعی کی ضرورت
——————
حضرت عمرو رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ اگر کوئی شخص عمرہ میں طواف کعب کرنے کے بعد صفا و مروہ کے درمیان دوڑنے سے قبل صحبت کرلے تو کیا حکم ہے ؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف لائے تو اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات بار کعبہ کا طواف کیا پھر مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں پڑھیں، اس کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی تمہارے لئے بہترین راہ عمل ہے، عمرو کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے یہی مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے سے قبل کوئی شخص، عورت سے قربت نہیں کرسکتا۔ [بخاري شريف : 387، 1544، 1547، 1563، 1564، 1700]
فائدہ:
حج جہاں ایک عاشقانہ عبادت ہے وہیں مجاہدانہ ریاضت بھی ہے، انسان اپنی تمام تر خواہشات کو پس پشت ڈال کر فقیروں والے لباس میں ’’لبیک‘‘ کے ترانے بلند کرتا ہوا اپنے گناہوں کی معافی کی امید میں دربار خداوندی پرڈیرہ ڈال دیتا ہے اور عورت اور دولت دونوں سے اپنے آپ کو بے نیاز کر لیتا ہے، پروردگار بھی کیسا قدردان ہے کہ حج سے فراغت کے بعد اسے گناہوں اور لغزشوں سے ایسے پاک صاف فرما دیتا ہے گویا کہ اس نے ماں کے پیٹ سے بھی جنم لیا ہو، شرط صرف اتنی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نقوش قدم پر چلنا اپنے لئے سعادت سمجھے۔

قصہ نمبر 65 :
کعبہ میں کعبہ
——————
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو ردیف بنائے ہوئے مکہ کے بالائی حصہ سے تشریف لائے، اس وقت عثمان بن طلحہ حاجب کعبہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہمرکاب تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام میں اونٹ کو بٹھایا اور عثمان رضی اللہ عنہ کو کعبہ کی کنجی لانے کا حکم دیا، کعبہ کھولا گیا اور حضور والا بلال رضی اللہ عنہ، اسامہ رضی اللہ عنہ، اور عثان رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لئے کعبہ میں داخل ہوئے اور بہت دیر تک اندر ٹہرے رہے، جب کافی دیر کے بعد باہر تشریف لائے تو لوگ کعبہ میں داخل ہونے کے لئے دوڑے، سب سے پہلے میں داخل ہوا، میں نے دیکھا کہ بلال دروازہ کے پیچھے کھڑے ہیں، میں نے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں نماز پڑھی تھی ؟ بلال رضی اللہ عنہ نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کر دیا لیکن میں یہ پوچھنا بھول گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں۔ [ بخاري شريف : 388، 456، 482، 484، 1114، 1521، 1522، 2826، 4038، 4139 ]
فائدہ:
بخاری شریف کی بعض دوسری روایات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خانہ کعبہ کے اندر دو کعتیں پڑھنا منقول ہے، اور ان میں ”جائے نماز“ کی تعین کرتے ہوئے ذکر کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں خانہ کعبہ کے بائیں جانب واقع دو ستونوں کے درمیان میں پڑھی تھیں اور دو رکعتیں ہی کعبہ سے نکل کر اس کے سامنے پڑھی تھیں۔ وہ کیسا سہانا دن تھا کہ کعبہ میں کعبہ کا کعبہ داخل ہوا، اپنے پرکیف سجدوں سے اسے رونق بخشی اور اسے سمجھا دیا کہ اگر کل کائنات تمہاری طرف رخ کر کے سجدہ کرنے لگے تو اپنے آپ کو کچھ سمجھنے نہ لگنا، تم اگر لوگوں کیلئے کعبہ ہو تو میں تمہارے لئے کعبہ ہوں اور اپنے آپ کو پروردگار عالم کا ایک بنده سمجھتا ہوں۔

قصہ نمبر 66 :
میں بھی انسان ہوں
——————
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، ابراہیم کہتے ہیں کہ اس کا مجھے خیال نہیں رہا کہ کم پڑھی یازیاده ؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو لوگوں نے کہا کیا نماز میں کوئی نیا حکم آگیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا ہوا ؟ لوگوں نے واقعہ بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا اپنے پاؤں پھیر کر استقبال قبلہ کیا اور دو سجدے
کرکے سلام پھیر دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر نماز میں کوئی ایسا حکم ہوتا تو میں تم کو پہلے بتادیا لیکن میں بھی تمہاری ہی طرح انسان ہوں اور جیسا تم کو نسیان ہو جاتا ہے ویسا ہی مجھ کو بھی ہوتا ہے۔ جب میں بھول جایا کروں تو مجھ کو یاد دلا دیا
کرو اور جب کسی کو نماز میں شک ہوجائے تو وہ سوچ کر غالب گمان پرنماز تمام کرے اور پھر سلام پھیر کر دو سجدے کرے۔ [بخاري شريف: 392، 396، 1168، 6294، 6822]
فائدہ:
اس واقعہ کی تفصیل بخاری شریف ہی کے حوالے سے مزید ملاحظہ ہو۔
حضرت ابوہرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو دوپہر کی نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھائی ( ابن سیرین کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز کا نام بھی لیا تھا لیکن میں بھول گیا) اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا اور مسجد میں ایک لکڑی رکھی تھی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکیہ لگایا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضب
ناک معلوم ہوتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدھا ہاتھ بائیں پر رکھا اور انگلیوں کو انگلیوں میں ڈال لیا اور داہنا رخسار بائیں ہتھیلی کی پشت پر رکھا، جلد باز لوگ مسجد کے دروازے سے نکل گئے اور کہنے لگے کہ نماز کم ہوگئی، حاضرین میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے، مگر ان کو کلام کرنے کی جرات نہ ہوئی لیکن ایک شخص جس کے ہاتھ لمبے تھے اور اس کو ذوالیدین کہا جاتا تھا، بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ بھول گئے یا نماز میں کمی ہو گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کمی ہوتی ہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا واقعی ایسا ہوا ہے لوگوں نے کہا ہاں ! چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیہ نماز ادا کر کے سلام پھیرا اور تکبیر کہی اور معمول کے مطابق یا اس سے کچھ طویل سجدہ کیا اس کے بعد سر اٹھاکر تکبیر کہی اور سلام پھیردیا۔ [بخاري شريف : 468و غيره]
تنبیہ :
یہ ابتداء اسلام کا واقعہ ہے اس واقعہ پرعمل کرتے ہوئے موجودہ دور میں دوران نماز کلام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

قصہ نمبر 67 :
عمر کی کتنی عمر ہے؟
——————
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے رب نے تین باتوں میں میری موافقت کی۔
➊ میں نے عرض کیا تھا یا رسول اللہ ! اگر آپ مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لیں تو کتنا اچھا ہو ؟ اس پر خدا تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی واتخذوا من مقام ابراهيم مصلي
➋ میں نے عرض کیا تھایا رسول اللہ ! آپ کے پاس نیک چلن اور بدچلن سبھی قسم کے آدمی آتے ہیں، اگر آپ ازواج مطہرات کو پردہ کا حکم دے دیں تو بہتر ہے اس پر خدا تعالی نے پردہ والی آیت نازل فرمائی۔
➌ مجھے خبر ملی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعض بیویوں سے ناراض ہیں، میں ان بیویوں کے پاس گیا اور کہا اگر تم (اپنی حرکتوں سے ) باز آجاؤ تو بہتر ہے ورنہ اللہ تعالی اپنے رسول کو تم سے بہتر عورتیں تمہارے بدلے میں عنایت فرمائے گا، ایک بیوی کے پاس جو میں گیا تو انہوں نے کہا عمر! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی بیویوں کو نصیحت نہیں کر سکتے کہ تم نصیحت کرنے آئے ہو، الله تعالی نے اس کے بعد آیت ذیل نازل فرمائی ”اگر وہ تم کو طلاق دے دیں تو ممکن ہے کہ خدا تعالی تم سے بہتر مسلمان عورتیں ان کوتمہارے عوض میں عطا فرما دے۔ “ [بخاري شريف : 393، 394، 4213، 4512، 4632]
فائدہ:
”موافقات عمر “ کی تفسیر و اصول تفسیر میں جو اہمیت حاصل ہے اصول تفسیر کے ادنی سے ادنی طالب علم پر عیاں اور واضح ہے، جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کیلئے طرہ امتیاز اور باعث صد افتخار ہے اور ہمیشہ علماء کرام نے اس کے ساتھ خصوصی توجہ کا معاملہ کیا ہے اور ”موافقات عمر“ پر کتابیں لکھی ہیں۔
علامہ سیوطی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’الاتقان‘‘ میں ان آیات کو جمع کیا ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دلی خواہش کے مطابق قرآن کریم کی آیت بن کر نازل ہوئیں، ایسی آیات کی تعداد کم و بیش بائیس کے قریب ہے۔ مزید تفصیل کے لئے ”الاتقان“ ملاحظہ فرمایئے۔

قصہ نمبر 68 :
یہ بھی ایک ادب ہے
——————
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی جانب ناک کی رطوبت پڑی دیکھی، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بہت تکلیف پہنچی اور اس کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر معلوم ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھ کر اس کو ہاتھ سے دور کیا اور فرمایا جب کوئی نماز پڑھتا ہے تو وہ اپنے رب سے کلام کرتا ہے یا یہ فرمایا کہ اس کے اور قبلہ
کے درمیان اس کا رب ہوتا ہے لہذا کوئی شخص قبلہ کی جانب نہ تھوکے، بلکہ بائیں جانب یا قدم کے نیچے تھوکے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کا کنارہ لے کر اس میں تھوک کر اس کو مل ڈالا اور فرمایا پھر اس طرح کرلیا کرے۔
[بخاري شريف :397، 402، 403، 407، 508، 1152، 238، 509]
فائدہ:
اسلامی تعلیمات اور آداب زندگی ایسے لازوال، شاندار اور شاہکار اصولوں پرمبنی ہیں جومعاشرے کو ”جنت نظیر“ بنانے کیلئے کافی سے زیادہ ہیں لیکن قابل افسوس بات یہ ہےکہ ہم ہر وقت غیروں کی اچھائی اور اپنوں کی برائی تلاش اور بیان کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں، ہم ہر اچھے کام کی نسبت مغرب کی طرف کرنا اپنے ساتھ لازم سمجھتے ہیں، ہر برائی ہماری نظروں میں تعلیمات اسلامی سے وجود پذیر ہوتی ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اسلام نے ہمیں تھوک پھینکنے تک کے آداب سکھائے ہیں، استنجاء کرنے کا طریقہ اور اس کے آداب کی تفصیل بیان فرمائی ہے اور ہر چھوٹی بڑی چیز کے متعلق ہماری رہنمائی فرمائی ہے، ضرورت کیا ہے؟ میں بھی سمجھتا ہوں اور آپ بھی واقف ہیں آیئے ! اس واقفیت کو عمل کی قوت میں تبدیل کریں۔

قصہ نمبر 69 :
اپنی مدد آپ کے تحت
——————
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین سے مال آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو مسجد میں ڈال دو، اور یہ مال بہ نسبت اور مالوں کے زائد تھا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے تشریف لائے اور اس کی طرف کچھ التفات نہ کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو اس کے پاس بیٹھ گئے اور جس کسی کو دیکھتے، اس کو کچھ مال دے دیتے اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ آ ئے اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو بھی عنایت فرمایئے کیونکہ میں نے اپنا اور عقیل کا بدر میں فدیہ دیا تھا (یعنی میں اس کے سبب قرض دار ہوں) آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جتنا چاہو، لے لو، لہذا انہوں نے اپنے کپڑے میں لے لیا پھر اس کو اٹھانا چاہا لیکن نہیں اٹھ سکا، تو انہوں نے کہا کہ آپ کسی سے اٹھانے کے لئے فرما دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ! پھر انہوں نے کہا کہ آپ خود اٹھوا دیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ! تو عباس رضی اللہ عنہ نے اس میں سے اور کم کر کے اس کو اٹھا کر کاندھے پر رکھا اور چل دیئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی حرص سے متعجب ہو کر ان کو جب تک کہ وہ نظروں سے پوشیدہ نہیں ہو گئے دیکھتے رہے، بعد ازاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت وہاں سے اٹھے جب ایک درہم بھی باقی نہیں رہا۔ [بخاري شريف : 411، 2884، 2994]
فائدہ:
غزوہ بدر اسلام کی فتح اور کفر کی شکست کا تاریخ ساز دن تھا جس نے حق و باطل کے درمیان حد فاصل قائم کر کے نسبی رشتوں کو توڑ کر تمام مسلمانوں کو ”اخوت ایمانی“ کے آہنی پنجے میں جکڑ دیا تھا، عم رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی عقیل کی گرفتاری اس کا منہ بولتا ثبوت تھا جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اپنی کل جمع پونجی خرچ کرنا پڑی لیکن زرفدیہ مہیا نہ ہوسکا، مجبورا قرض لینا پڑا۔
قبول اسلام کے بعد ادائیگی قرض کی فکر دامن گیر ہوئی، مال بحرین سے حصہ وصول کرنے کیلئے بارگاہ نبوی میں پہنچے اور مذکورہ واقعہ پیش آیا، اسے ”حرص وطمع“ کی آڑ میں سمجھنے سے زیادہ ایک غریب اور مقروض کے حالات کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے تا کہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے متعلق ہماری زبان سے کوئی ایسا جملہ نہ نکل جائے جو ان کی شایان شان نہ ہو۔

قصہ نمبر 70 :
یہ ایک اور معجزہ ہوا
——————
ایک مرتبہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم رضی اللہ عنہا (زوجہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ) سے جا کر کہا آج میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو آواز کچھ کمزور معلوم ہوئی، معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھوک کا شکار ہیں، کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے ؟ ام سلیم دنیا نے جواب دیا جی ہاں ! جو کی چند ٹکیاں ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، یہ کہہ کر ام سلیم رضی اللہ عنہا نے دوٹگیاں نکالیں اور اپنا دوپٹہ اتار کر اس کے دامن میں روٹیاں لپیٹ کر میرے ہاتھ کے نیچے چھپادیں اور دو پٹہ کا باقی حصہ میرے اوپر ڈال دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کر دیا، میں روٹیاں لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے اور کچھ آدمی اور بھی بیٹھے ہوئے تھے، میں جا کر کھڑا ہو گیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم کو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! فرمایا کچھ کھانا دے کر بھیجا ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا اٹھو چلو۔
حسب الحکم لوگ اٹھ کر چل دیے، میں سب کے ساتھ تھا (حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے مکان پر پہنچے ) میں نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے جا کر کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو سب آدمیوں کو ہمراہ لے کر تشریف لے آئے اور ہمارے پاس کھانے کو کچھ ہے نہیں؟ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے جواب دیا خدا اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود خوب واقف ہیں۔
اس کے بعد حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لئے نکل آئے اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم مع ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے مکان میں داخل ہوئے اور فرمایا ام سلیم ! جو کچھ تمہارے پاس موجود ہولاؤ، ام سلیم رضی اللہ عنہا نے وہی روٹیاں حاضر کر دیں، حسب الحکم روٹی کے ٹکڑے کئے گئے اور ام سلیم نے کپی نچوڑ کر (گھی کو ) سالن کی طرح ملایا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بحکم خدا جو ( دعا) کرنا چاہی روٹی کے تعلق کی، پھر ( ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے) فرمایا دس آدمیوں کو کھانے کی اجازت دو، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہا نے دس آدمیوں کو کھانے کی اجازت دی، جب وہ کھا چکے اور سیر ہو کر چلے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دس آدمیوں کو اور اجازت دو، ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے دس آدمیوں کو اور اجازت دے دی اور وہ بھی کھا کر سیر ہو کر چلے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا دس کو اور بلاؤ، حسب الحكم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان کو بھی بلایا اور وہ بھی کھا کر سیر ہو کر چلے گئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا دس کو اور بلاؤ۔ خلاصہ یہ کہ سب لوگ کھا کر سیر ہوگئے اس وقت سب لوگ ستر، اسی تھے۔ [بخاري شريف : 412، 33850، 5066، 5135]
فائدہ:
شاید آپ کو یاد آ گیا ہو کہ یہ ”انس“ وہی خادم مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہیں دس سال کی عمر سے لیکر بیس سال کی عمر تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل رہا ہے، اس خدمت نے جہاں ان میں سنجیدگی پیدا کر دی تھی وہیں وہ مزاج شناس نبوت بھی ہوگئے تھے۔
تاریخ عالم میں ایسے واقعات کی اگرچہ کمی نہیں کہ تھوڑی چیز میں اتنی برکت ہوئی کہ وہ تمام حاضرین کیلئے کافی ہوگئی تاہم واقعے کے مرکزی کردار کی حیثیت سے یہ ایک نادر مثال ہے جو آپ کو مدینہ والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں اور کہیں دستیاب نہیں ہوسکتی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے