واسطوں پر بھروسا: اسلام میں شفاعت، وسیلہ اور توحید کے تقاضے
واسطہ بنانے والے کے بارے میں اجماعی حکم
"من جعل بینہ وبین الله وسائط، یدعوھم، ویسألھم الشفاعۃ، ویتوکل علیھم کفر اجماعًا”
یعنی جو شخص اللہ اور اپنے درمیان کسی کو واسطہ بناتا ہے، ان سے دعائیں مانگتا ہے، شفاعت کا طلبگار ہوتا ہے اور ان پر بھروسہ کرتا ہے، تو وہ بالاجماع کافر ہے۔
مشرکین کا غلط تصور شفاعت
– ہر زمانے کے مشرکین کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ اگر وہ کسی کو اللہ کے قریب کرنے والا مان کر، وسیلہ یا سیڑھی سمجھ کر پکاریں، تو یہ شرک نہیں۔
– وہ انہیں مستقل بالذات نہیں سمجھتے، بلکہ صرف اللہ کی بارگاہ میں سفارشی تصور کرتے ہیں۔
مشرکین مکہ کا عقیدہ
– مشرکین مکہ بھی اپنے معبودوں کو نفع و نقصان کا مالک نہیں سمجھتے تھے، بلکہ انہیں اللہ کے سامنے واسطے سمجھتے تھے:
**وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ** _سورہ یونس: 18_
’’اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو نقصان پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘
**أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ** سورۃ الزمر: 3
’’خبردار اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خالص عبادت کرنا ہے اور لوگوں نے اس کے سوا کارساز بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔‘‘
موجودہ دور کی حقیقت
– آج بہت سے لوگ اپنے اور اللہ کے درمیان اولیاء یا بزرگوں کو واسطہ بنا لیتے ہیں۔
– وہ ان واسطوں سے حاجات و مشکلات کے حل کی درخواست کرتے ہیں۔
– یہ عقیدہ امت مسلمہ کے اجماع کے مطابق **کفر** ہے۔
قبروں کے پجاری اور انکارِ توحید
– بہت سے لوگ قبروں اور ان میں مدفون بزرگوں کو پکار کر شرک کرتے ہیں۔
– اللہ تعالیٰ نے رسولوں اور کتابوں کو اسی لیے بھیجا کہ لوگ خالص اللہ کی عبادت کریں۔
اللہ کی طرف براہِ راست رجوع
– اللہ تعالیٰ براہِ راست سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
– کسی بادشاہ سے تشبیہ دے کر یہ کہنا کہ اللہ کو بلاواسطہ نہیں پکارا جا سکتا، اللہ کو مخلوق کے ساتھ مشابہت دینا ہے، جو کہ کفر ہے۔
قرآن کی دلیل
**قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّـهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ ﴿٢٢﴾ وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ** _سورۃ سبأ: 22-23_
’’کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے سب کو پکار لو نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے اور نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے۔ نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے۔ شفاعت کی (درخواست) بھی اس کے پاس کچھ فائدہ نہیں دیتی۔ سوائے ان کے جن کے لیے کوئی اجازت ہو جائے‘‘۔
ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ غیر اللہ کو پکارنا بے کار ہے، کیونکہ وہ کسی چیز کے مالک نہیں۔
شفاعت کی حقیقت
– قیامت کے دن شفاعت صرف اللہ کی اجازت سے ہو گی۔
**قُلْ لِلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا**_سورۃ الزمر: 44_
’’کہہ دیجیے کہ تمام سفارش پوری اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘
– شفاعت کی دو اقسام:
– **منفی**: غیر اللہ سے طلب کی گئی۔
– **مثبت**: اللہ سے کی گئی، اور اہلِ توحید کے لیے مخصوص۔
شفاعت کی شرائط:
1. **اللہ کی اجازت**:
; **مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ**_سورۃ البقرۃ: 255_
’’کون شخص ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت کرے گا۔‘‘
2. **اللہ کی رضا**:
**وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی** _سورۃ الانبیاء: 28_
’’کون شخص ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت کرے گا۔‘‘
صرف موحدین کو شفاعت کا فائدہ
_”میری سفارش کا فائدہ ہر اس شخص کو پہنچے گا جس نے اللہ کے ساتھ کچھ بھی شریک نہ کیا ہو.”_
_(صحیح مسلم: 199، صحیح بخاری: 6304)_
کفار کے لیے شفاعت کا انکار
– جاہلوں کا یہ عقیدہ کہ بزرگ اللہ سے منوا لیتے ہیں، باطل ہے۔
– اللہ کا فرمان:
وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ ۙ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ _سورۃ الانعام: 51_
’’اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کیئے جائیں گے کہ اس کے سوا نہ کوئی ان کا مددگار ہو گا اور نہ کوئی سفارشی ہو گا اس امید پر کہ وہ ڈر جائیں۔‘‘
فرشتوں سے مدد مانگنا بھی شرک
– اگرچہ فرشتے اللہ کے حکم سے کائناتی امور میں تدبیر کرتے ہیں، مگر ان سے دعا کرنا شرک ہے۔
مشرکوں کو کافر نہ سمجھنے کا حکم
**من لم یکفر المشرکین أو شک فی کفرھم أو صحح مذھبھم**
جس شخص نے مشرکوں کو کافر نہیں سمجھا یا ان کے کفر میں شک کیا یا ان کے مذہب کو درست مانا، وہ بھی کافر ہے۔
مذہبی رواداری کے غلط مفہوم
– کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ "ہر مذہب پیارا ہوتا ہے”، اور مشرکین کے مذہب کو جہنم کا راستہ کہنے سے گریز کرتے ہیں۔
– حقیقت یہ ہے کہ:
_”اسلام کے علاوہ ہر دین، گمراہی اور جہنم کی راہ ہے۔”_
– نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
_”جس نے میرے بارے میں سنا اور ایمان نہ لایا، وہ جہنمی ہے.”_
_(صحیح مسلم: 153)_
دین اسلام ہی نجات کا واحد راستہ
– تورات، انجیل، وید وغیرہ سب منسوخ ہو چکے ہیں۔
– نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور دین پر عمل کرنے والا نجات نہیں پا سکتا۔
معاندین کی تکفیر اور اس کا انکار
– وہ لوگ جو:
– نبی کے بعد کسی اور کو نبی مانیں (مثلاً مرزا قادیانی)
– یا شرک اکبر میں مبتلا ہوں
ان کو کافر نہ سمجھنا **ارتداد** ہے۔
**من قال لا الٰہ الا الله، وکفر بما یعبد من دون الله، حرم مالہ ودمہ وحسابہ علی الله۔** _(صحیح مسلم: 23)_
’’جو شخص کلمہ توحید پڑھے اور الله کے علاوہ دیگر معبودوں کا کفر کرے۔ اس کا مال اور اس کی جان حرمت و عزت والی ہے۔ اس کا حساب و کتاب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔‘‘
– یعنی صرف کلمہ پڑھنا کافی نہیں، بلکہ غیر اللہ کے انکار کے بغیر جان و مال محفوظ نہیں۔
اہلِ ایمان پر لازم دشمنی
– اللہ نے فرمایا:
**قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ**_سورۃ الممتحنۃ: 4_
’’مسلمانو! تمہارے لئے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے۔ جبکہ انہوں نے اپنی قوموں سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، بالکل بیزار ہیں۔ ہم تمہارے (عقائد و منہج حیاۃ) کے منکر ہیں۔ جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں اور تم میں، ہمیشہ کے لئے بغض و عداوت ظاہر ہو گئی۔‘‘
– یعنی اہلِ ایمان پر واجب ہے کہ وہ کفار و مشرکین سے **بغض و عداوت** رکھیں۔
کفار و مشرکین سے دلی تعلق کی حرمت
**يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ** _سورۃ التوبۃ: 23_
’’اے ایمان والو! اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان سے زیادہ عزیز رکھیں۔ تم میں سے جو بھی ان سے محبت کرے گا وہی ظالم ہو گا۔‘‘
– اگر والد یا بھائی بھی کافر ہوں اور کفر کو ترجیح دیں تو ان سے محبت حرام ہے۔
مسلمانوں کو بیدار کرنے کی ذمہ داری
علما، خطبا، اور ائمہ پر فرض ہے کہ وہ لوگوں کو کفار سے میل جول کے نقصانات سے آگاہ کریں۔
**لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ** _سورۃ المجادلۃ: 22_
’’اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا قبیلے کے (عزیز) ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
– ایمان اور کفار سے محبت **ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے**۔
نبی کریم ﷺ کی واضح تعلیمات
– نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
_”أنا بریء من كل مسلم يقيم بين أظهر المشركين.”_
یعنی میں ان مسلمانوں سے بری الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہائش اختیار کرتے ہیں۔
_(ابوداؤد: 2645، ترمذی: 1604، شیخ البانی نے صحیح کہا)_
– یعنی جو مسلمان مشرکین کے درمیان رہے، وہ نبی ﷺ کی براءت میں آ گیا۔
– ایک اور حدیث:
_”لا یقبل الله من مشرک بعد ما أسلم عملاً حتی یفارق المشرکین الی المسلمین.”_
’’الله تعالیٰ کسی مشرک کے اسلام لانے کے بعد اس کا کوئی عمل اس وقت تک قبول نہیں فرماتا جب تک وہ مشرکوں سے دور ہو کر مسلمانوں میں داخل نہ ہو جائے۔‘‘
_(ابن ماجہ: 2536، شیخ البانی نے حسن کہا)_
– اسلام لانے کے بعد مشرکین سے علیحدگی لازمی ہے، ورنہ اعمال قبول نہیں ہوں گے۔
رسول اللہ ﷺ کی وعید
_”من جامع المشرک، وسکن معہ فانہ مثلہ”_
– جو شخص مشرکوں کے ساتھ گھل مل جائے، ان کی جیسی رہائش رکھے، وہ انہی جیسا ہے۔
_(ابوداؤد: 2787، شیخ البانی نے صحیح کہا)_
دین کی طرف واپسی: مسلمانوں کی فلاح
– بہت سے دعویدارِ اسلام حکام و عوام مشرکوں کے دوست بن چکے ہیں، دین داروں کے دشمن بن گئے ہیں۔
– اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
**يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ** _سورۃ المائدۃ: 51_
’’اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے۔ وہ بے شک انہی میں سے ہے۔ ظالموں کو الله تعالیٰ ہرگز راہِ ہدایت نہیں دکھاتا۔‘‘
**لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّـهِ فِي شَيْءٍ** _سورۃ آل عمران: 28_
’’مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ الله تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں ہو گا۔‘‘