نیک طالبہ کو زکوٰۃ دینا جائز ہے یا نہیں؟ مکمل شرعی وضاحت
ماخوذ: احکام و مسائل، زکٰوۃ کے مسائل، جلد 1، صفحہ 274

سوال کا پس منظر

ایک لڑکی جو ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر رہی ہے، اس کے والد صاحب بے روزگار ہیں۔ داخلے کے لیے اس نے اپنے ماں باپ کا ذاتی گھر فروخت کر کے فیس ادا کی ہے۔ اب وہ لڑکی اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ساتھ اپنے نانا کے گھر میں مقیم ہے۔ ماشاء اللہ وہ لڑکی دیندار ہے، دین کی سوجھ بوجھ رکھتی ہے، اور پردے کی پابند ہے۔ اگرچہ وہ مخلوط ادارے میں تعلیم حاصل کر رہی ہے، لیکن وہ حیا والی ہے، چہرے کا پردہ کرتی ہے، قرآن کی تعلیم حاصل کرتی ہے اور اس کی تدریس میں حصہ لیتی ہے۔ دین کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوتی ہے۔ اگر وہ ڈاکٹر بنے گی تو ان شاء اللہ ایک نیک مومنہ ڈاکٹر بنے گی، جو کہ اللہ کے دین کی گواہی دے گی، برخلاف یہودی یا عیسائی ڈاکٹروں کے جو اس فریضہ کو انجام نہیں دیتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی لڑکی کو زکوٰۃ دینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر سوال میں بیان کردہ صورت حال حقیقت پر مبنی ہے اور وہی حقیقی کیفیت ہے، تو ایسی حالت میں اس لڑکی پر زکوٰۃ اور صدقہ خرچ کرنا شرعی طور پر جائز اور درست ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿إِنَّمَا ٱلصَّدَقَٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَٱلۡمَسَٰكِينِ وَٱلۡعَٰمِلِينَ عَلَيۡهَا وَٱلۡمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمۡ وَفِي ٱلرِّقَابِ وَٱلۡغَٰرِمِينَ وَفِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱبۡنِ ٱلسَّبِيلِۖ فَرِيضَةٗ مِّنَ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٞ﴾
— التوبة: 60

یعنی:

"صدقہ تو صرف فقیروں، مسکینوں، ان کے کام پر مقرر کارکنوں، اُن لوگوں کے لیے ہے جن کے دلوں کو (اسلام کے لیے) مائل کیا جائے، گردنوں (کے چھڑانے)، قرض داروں، اللہ کی راہ میں (جہاد و دیگر دینی امور میں)، اور مسافر کے لیے ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ فریضہ ہے، اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔”

دعا

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس خاندان سمیت ہر مسلمان کی تمام قسم کی پریشانیاں دور فرمائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1