سوال :
شادی بیاہ کے موقع پر جو نیوتا لیا جاتا ہے، اس کی شرعی حیثیت بیان فرمائیں؟
جواب :
برصغیر پاک وہند میں اہل اسلام اور ہندوؤں کے اختلاط کی وجہ سے بے شمار خرابیاں نے جنم لیا اور یہ خرابیاں اعتقاد وایقان اور اعمال میں یکساں رونما ہوئی ہیں۔ انھی مفاسد اور خرابیوں میں سے شادی بیاہ کی رسومات و بدعات ہیں۔ ہندوانہ رسم و رواج میں سے رسم نیوتا (نیوندرا) بھی ہے اور کہا جاتا ہے کہ شادی بیاہ میں اخراجات کثیر ہوتے ہیں اور یہ تعاون کی ایک شکل ہے۔ حالانکہ یہ صورت قرض کی تیج ترین قسم ہے، شادی بیاہ پر کسی شخص کو رجسٹر دے کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ جتنے لوگوں کو اس پارٹی اور تقریب میں مدعو کیا جاتا ہے، کھانے کے بعد ان سے پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ اگر ایک آدمی نے شادی پر نود پیہ دیا ہے تو وہ اس سے دگنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اگر اس کی دی ہوئی رقم سے زیادہ نہ دی جائے تو ناراضی جنم لیتی ہے اور اگر کوئی اتنی ہی رقم دے جتنی اس نے لی تھی تو کہا جاتا ہے کہ اس نے ہم سے بھائی ختم کر دی ہے۔ یہ خالص ہندوانہ رسم ہے۔ ہندوستان میں کنبوہ برادری ایسی اشیاء کو پسند نہیں کرتی تھی۔ ڈاکٹر محمد عمر اپنی کتاب میں جہیز کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
”کنبوہ فرقے کے مسلمان جہیز نہیں دیتے تھے اور عروس کے گھر سابق (رسم منہدی) بھی نہیں بھیجتے تھے اور نکاح میں، یا شب عروسی کو یا حنا بندی کے موقع پر شربت پلانے کے بعد براتیوں سے نیوتا باننگ بھی نہیں لیتے تھے، کیوں کہ یہ لوگ فرط غیرت سے ان کاموں کو مکروہ سمجھتے تھے، شادی کے بعد لاکھ دو لاکھ جو کچھ بھی ان کو میسر ہوتا تھا، نقد اور جنس کی صورت میں اولاد کو پہنچا دیتے تھے، لیکن داماد کے ساتھ جہیز نہیں بھیجتے تھے، تاکہ دکاندار، راہ گیر اور دوسرے تماشا بین گھروں کی چھتوں سے اس مال کو جاتے نہ دیکھیں۔“
پھر آگے لکھتے ہیں:
”اور اس طرح شربت پلانے کے بعد نیگ اس وجہ سے نہیں لیتے تھے کہ بعض غریب اور نادار حاضرین شرمندہ ہوں گے، یا بعض لوگ قرض لے کر دیں گے اور انھیں زیر بار ہونا پڑے گا۔“
ہندوستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر (153 ، 154)
اسی طرح مولانا عبید اللہ مالیر کوئی نے تحفة الهند ص 184 میں ہندوؤں کی رسومات میں کھٹ کا تذکرہ کیا ہے۔ بہر کیف نیوندرا اور کھٹ یہ خالص ہندوؤں کی رسم ہے، ہمیں اغیار کی رسومات سے بچنا چاہیے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من تشبه بقوم فهو منهم
أبوداود، كتاب اللباس، باب في لبس الشهرة (1031) مسند أحمد (92،50/2، ح: 5667، 5115، 5114)
”جس نے کسی قوم کی نقالی کی وہ انھی میں سے ہے۔“
دوسری بات یہ ہے کہ یہ ایسا قرض ہے جو مرنے والا اپنے بعد اولاد در اولاد کے لیے چھوڑ جاتا ہے اور قرض کی ادائیگی جب تک نہ ہو جنازہ پڑھنا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پسند نہ فرماتے تھے اور تیسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی فرد کسی دوسرے پر احسان یا تنگی میں اس کا تعاون کرنا چاہے تو اسے اپنے اس احسان کا بدلہ زیادہ لینے کی توقع سے نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ﴾
(المدثر : 6)
”اور احسان کر کے زیادہ لینے کی خواہش نہ کرو۔“
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
لا تعط العطية تلتمس أفضل منها
تفسیر طبری (14/23)
”کسی کو ایسا عطیہ و تحفہ نہ دو کہ اس سے افضل کا مطالبہ کرو۔“
یہی تفسیر عکرمہ، مجاہد، عطاء، طاؤس، ابو الاحوص، ابراہیم، مخفی بناک، قتادہ اور سدی وغیرہم سے مروی ہے۔
ابن کثیر (340/6)، الدر المنثور (301/8)، تفسیر طبری (12 /303،302)
لہٰذا رسم نیوتا ہندوانہ رسم، قرض کی بری قسم اور کسی سے نیکی کر کے زیادہ کی حرص اور مطالبہ جیسے امور پر مبنی ہے، اس لیے اس سے کلی اجتناب برتنا چاہیے، اللہ ہمیں ان رسومات سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)