زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
سوال:
نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنے کے بارے میں کیا شرعی حکم ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
«إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِءٍ مَا نَوَی»
(صحیح البخاری، بدء الوحی، باب کیف کان بدا الوحی الی رسول الله، ح:۱، وصحیح مسلم، الامارة، باب انما الاعمال بالنية، ح: ۱۹۰۷)
ترجمہ:
"تمام اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے نیت کی۔”
نیت کا اصل مقام دل ہے
✿ نیت کا تعلق صرف دل سے ہوتا ہے، اسے زبان سے ادا کرنا لازم نہیں۔
✿ مثال کے طور پر: جب آپ اٹھ کر وضو کرنے لگتے ہیں تو یہی نیت ہے۔
✿ ایک عقل مند اور باشعور انسان، جس پر کسی قسم کا جبر یا زبردستی نہ کی گئی ہو، وہ جب بھی کوئی عمل کرتا ہے تو وہ نیت ہی سے کرتا ہے۔
✿ اسی لیے بعض اہل علم نے کہا ہے:
اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں کسی عمل کو بغیر نیت کے کرنے کا مکلف بنا دیا ہوتا تو یہ "تکلیف مالایطاق” یعنی انسانی طاقت سے باہر بات ہوتی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی عملی مثال
✿ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زبان سے نیت ادا کرنا ثابت نہیں ہے۔
✿ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنے والے لوگ دراصل:
یا تو جہالت کی بنیاد پر ایسا کرتے ہیں،
یا ان اہل علم کی تقلید میں ایسا کرتے ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ:
نیت زبان سے اس لیے ادا کی جائے تاکہ دل اور زبان میں مطابقت پیدا ہو جائے۔
زبان سے نیت ادا کرنے کی رائے کا شرعی مقام
✿ ہم کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی یہ بات درست نہیں، کیونکہ:
➊ اگر زبان سے نیت ادا کرنا شریعت کا تقاضا ہوتا،
➋ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے قول یا عمل سے لازماً امت کے سامنے بیان فرما دیتے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب