غیر اللہ کی نیاز سے متعلق بریلوی حیرانی و پریشانی
حفیظ الرحمن قادری صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ کیا غیر اللہ کے نام کی چیز حرام ہے غیر اللہ کے نام پر کوئی چیز دی جائے تو شور شرابا ہوتا ہے کہ تم غوث پاک کے نام پر نیاز دلاتے ہو داتا صاحب کے نام امام حسین رضی اللہ عنہ نبی اللہ کے نام پر تو یہ غیر اللہ کے نام کی تمام چیزیں حرام ہیں۔
کتاب مذکور، ص: 39
✔ الجواب :
نذر ایک عبادت ہے یہ صرف اللہ کا حق ہے غیر اللہ کے لیے حرام ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کا مقام ساری کائنات کی مخلوقات سے بلند تر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت کرتے تھے اس کے باوجود پورے ذخیرہ احادیث میں ایک حدیث بھی آپ کو نہیں ملے گی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے نام کی نذر دیتے تھے یا نیاز مانتے تھے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر گائے وغیرہ دیتے تھے ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہم سے بھی نہیں ملتا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کوئی دن مقرر کر کے نذر دیتے تھے۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کو اپنے نام کی نذر ماننے کی تعلیم نہیں فرمائی۔
قادری صاحب فرماتے ہیں کہ غیر اللہ کی نذرونیاز دینے سے شور شرابا ہوتا ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ قادری اپنے مذہب کی کتابوں سے بھی واقف نہیں فقہ حنفی کی تمام معتبر کتابوں میں بیان کیا گیا ہے کہ نذر ایک مالی عبادت ہے نذر صرف اللہ کا حق ہے میں آپ کو اپنے ہی آئینے میں چہرہ دکھاتا ہوں۔
انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زباں میری ہے بات انکی
انہی کی محفل سنوارتا ہوں چراغ میرا ہے رات ان کی
آپ کے حنفی مذہب کی معتبر کتاب فتاوی عالمگیری میں لکھا ہے۔
والتذر الذى يقع من اكثر العوام بان ياتي إني قبر بعض الصلحاء ويرفع سترة قائلا يا سيدى فلان إن قضيت حاجي فلك فى من الذهب كذا باطل إجماعا
فتاوی عالمگیری صفحه 216 ج اول باب الاعتكاف طبع مصر
اکثر عوام میں جو یہ رواج ہے کہ وہ کسی نیک آدمی کی قبر پر جا کر نذر مانتے ہیں کہ اے فلاں بزرگ اگر میری حاجت پوری ہوگئی تو اتنا سونا تمہاری قبر پر چڑھاؤنگا یہ نذر بالا جماع باطل ہے
مزید لکھا ہے کہ جو دینار و درہم یا اور چیز میں اولیاء کرام کی قبروں پر ان کا قرب حاصل کرنے کے لیے دی جاتی ہیں وہ بالا جماع حرام ہیں۔
فتاوی عالمگیر حوالہ مذکور
فقہ حنفی کی معتبر کتاب در مختار میں ہے:
واعلم ان النذر يقع بلا موات من اكثر العوام وما يوخذ من الدراهم ولشمع والذيت ونحوها الى ضرائح الاولياء الكرام تقربا اليهم فهو بالا جماع باطل حرام
در مختار آخر كتاب الصوم، ج1، ص: 590
معلوم ہونا چاہیے کہ اکثر عوام مردوں کے نام پر نذریں نیازیں دیتے ہیں چڑھاوے چڑھاتے ہیں اولیاء اکرام کا تقرب حاصل کرنے کے لیے مالی نذرانے پیش کرتے ہیں اور ان کی قبروں پر چراغ اور تیل جلاتے ہیں یہ سب چیزیں بالاجماع باطل اور حرام ہیں۔
اسی طرح در مختار کی مشہور شرح ردالمختار میں اس کی شرح یوں کی گئی ہے۔
قوله باطل وحرام لوجوه منها انه نذر المخلوق والنذر لمخلوق لا يجوز لانه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق ومنها ان المنذوله ميت والميت لا يملك انه ظن ان الميت يتصرف فى الامور دون الله تعالى وعتقاده ذالك كفر
ردالمختار جلد دوم، صفحه 431 طبع مصر: 1966
یعنی اس نذر غیر اللہ کے باطل اور حرام ہونے کے کئی وجوہ ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ قبروں کے چڑھاوے وغیر مخلوق کے نام کی نذریں ہیں اور مخلوق کے نام کی نذر جائز ہی نہیں اس لیے کہ نذر بھی ایک عبادت ہے اور عبادت کسی مخلوق کی جائز نہیں ایک اور وجہ یہ ہے کہ جس کے نام کی نذر دی جاتی ہے وہ مردہ ہے اور مردہ کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نذر دینے والا شخص مردوں کے متعلق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ اللہ کے سوا کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار رکھتے ہیں حالانکہ مردوں کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنا بھی کفر ہے۔
اس کے متعلق فقہ حنفی میں بہت سارے حوالہ جات موجود ہیں۔ مگر میں نے بطور نمونہ چند ہی پیش کیے ہیں تاکہ قادری صاحب اہل حدیث پر برسنے کی بجائے اپنے مسلک حنفی مذہب کا ہی مطالعہ کر لیں تو ان پر نذر غیر اللہ کی حرمت واضح ہو جائے گی ۔ ہم نے اپنی طرف سے کسی پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا بلکہ آپ کا فتویٰ آپ کے سامنے پیش کیا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ سورہ المائدہ: 3
تم پر حرام ہوا مردار جانور اور خون اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے۔
نیز فرمایا:
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ سورہ البقرہ: 173
اس نے تم پر مردار جانور اور خون اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کر دیا ہے۔
آیات مذکور میں لفظ اهل معنی پکارا گیا ، نامزد کرنا ، آواز لگانا ، اور ذکر کرنا مراد ہے مشرکین کا اصل شرک یہی تھا کہ وہ اپنی آمدنی سے اللہ کے نام پر دینے کے ساتھ ساتھ اپنے شریکوں کا حصہ بھی نکالا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے شرکیہ عمل کا تذکرہ قرآن مجید میں اس طرح کیا:
وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَذَا لِشُرَكَائِنَا سورہ الانعام: 136
اور یہ لوگ اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی چیزوں یعنی کھیتی اور چوپایوں میں اللہ کا بھی ایک حصہ مقرر کرتے ہیں اور اپنے خیال سے کہتے ہیں کہ یہ حصہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے شریکوں کا۔
معلوم یہ ہوا کہ مکہ والے اللہ کے نام پر بھی دیتے تھے نذر میں اپنے بتوں کو بھی اللہ کا شریک بناتے تھے ۔ اگر کسی کو بتایا کہ بھائی یہ نذر و نیاز دینا صرف اللہ کے نام پر جائز ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے بزرگوں کو ایصال ثواب کرتے ہیں ہم نے جانور تو اللہ کے نام پر ذبح کیا ہے۔ یہ بات دیکھنے والوں کو معقول لگتی ہے مگر ان کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ قبر والا بزرگ ہمارے حالات جانتا ہے اور حالات کو بدلنے کی بھی طاقت رکھتا ہے نفع و نقصان دینے کی قوت رکھتا ہے عالم الغیب مختار کل ہے جو چاہے کر سکتا ہے۔
غور فرمائیں اگر محض ثواب پہنچانا ہے تو شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی شخصیت کا تعین کس لیے کیا جاتا ہے پھر ہر مہینے کی گیارہ تاریخ مقرر کرنے میں کیا راز ہے کیا ایصال ثواب کے لیے اُمت میں کوئی اور شخصیت نظر نہیں آتی۔
نعوذ باللہ اگر ان کو گنہ گار سمجھ کر ان کو ثواب پہچانے کی فکر میں ہو تو یہ ان کی بے ادبی ہے کیونکہ وہ تو اللہ کے نیک وصالح بندے تھے۔
اگر ان کو نیک سمجھ کر انہیں ایصال ثواب کا مستحق سمجھ لیا گیا ہے تو پھر ان سے بڑھ کر بھی امت میں ایسی شخصیات موجود ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر ان میں ممتاز شخصیات عشرہ مبشرہ:
(1) ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
(2) عمر فاروق رضی اللہ عنہ
(3) عثمان غنی رضی اللہ عنہ
(4) حضرت علی رضی اللہ عنہ
(5) حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ
(6) حضرت زبیر رضی اللہ عنہ
(7) حضرت سعد رضی اللہ عنہ
(8) حضرت سعید رضی اللہ عنہ
(9) حضرت عبد الرحمن بن جراح رضی اللہ عنہ
(10) حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
ان کے علاوہ تابعین تبع تابعین ہیں کبھی ان کو بھی ایصال ثواب کیا ہے؟ ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ نذر و نیاز عبادت ہے اور یہ خاص اللہ کا حق ہے اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا:
وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا سورہ الکہف: 110
اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں۔
لیکن لوگوں کی کیفیت کچھ ایسی ہو چکی ہے کہ جہالت کی وجہ سے مزارات پر عورتوں کو بھی بطور چڑھاوا پیش کیا جاتا ہے۔ چنانچہ احمد رضا خان صاحب بریلوی لکھتے ہیں کہ سید عبدالوھاب اکابر اولیائے کرام میں سے ہیں۔ حضرت سیدی احمد بدوی کبیر کے مزار پر بہت بڑا میلہ اور ہجوم ہوتا تھا۔ اس مجمع میں ایک تاجر کی کنیز پر نگاہ پڑی فورا نگاہ پھیر لی کہ حدیث میں ارشاد ہوا پہلی نظر تیرے لیے ہے اور دوسری نظر تجھ پر یعنی پہلی نظر کا کچھ گناہ نہیں اور دوسری کا مواخذہ ہوگا خیر نگاہ تو آپ نے پھیر لی مگر وہ آپ کو پسند آئی جب مزار شریف پر حاضر ہوئے تو ارشاد فرمایا عبدالوھاب وہ کنیز پسند ہے۔ عرض کی ہاں اپنے شیخ سے کوئی بات چھپانا نہ چاہیے۔ ارشاد فرمایا اچھا ہم نے تم کو وہ کنیز ہبہ کی اب آپ سکوت میں ہیں کہ کنیز تو اس تاجر کی ہے اور حضور ہبہ فرما رہے ہیں معاً وہ تاجر حاضر ہوا اور اس نے وہ کنیز مزار اقدس کی نذر کی خادم کو اشارہ ہوا۔ انہوں نے آپ کی نذر کر دی ارشاد فرمایا عبدالوھاب اب دیر کیا ہے کہ فلاں حجرہ میں لے جاؤ اور اپنی حاجت پوری کرو ۔
ملفوطات الحضرت حصہ سوئم صفحہ 310
احمد رضا خان صاحب کے قول سے ظاہر ہے کہ عورت بطور نذرو نیاز دی جاسکتی ہے اس میں نہ ہی کوئی شرعی ممانعت ہے اور نہ ہی دنیا کی ملامت کیونکہ بریلوی عقیدہ کی رو سے بزرگوں کو خوش کرنا عین عبادت اور خوشنودی مولا کا موجب ہے خصوصاً حضرت پیر صاحب کو خوش کرنا تو بریلوی بالکل رضائے الہی کا موجب مانتے ہیں۔
مگر حدیث میں ہے۔
لعن الله من ذبح لغير الله
مسند احمد 954 نسائی 4432
اللہ کی لعنت ہو اس آدمی پر جس نے غیر اللہ کے لیے ذبح کیا۔
نماز میں ہر بندہ اس بات کا اقرار کرتا ہے:
التحيات لله والصلوات والطيبات
زبان کی تمام عبادتیں ، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں ۔
غیر اللہ کی نذر و نیاز احمد رضا بریلوی کے نزدیک بھی حرام ہے!
کچھ لوگ کسی درخت کے پاس جا کر اپنی نذرونیاز مانتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ شہید بابا کی بیٹھک ہے اس کو احمد رضا خان صاحب بریلوی نے بھی ناجائز قرار دیا ہے۔ چنانچہ ان سے سوال کیا گیا کیا فرماتے ہیں علمائے اہل سنت اس صورت میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں درخت پر شہید مرد ہیں اور فلانے طاق میں شہید مرد رہتے ہیں اور اس درخت اور اس طاق کے پاس جاکر ہر جمعرات کو فاتحہ شرینی اور چاول وغیرہ لاتے ہیں ہار لٹکاتے ہیں لوبان سلگاتے ہیں مرادیں مانگتے ہیں اور ایسا دستور اس شہر میں بہت جگہ واقع ہے کیا شہید مردان درختوں اور طاقوں میں رہتے ہیں اور یہ اشخاص حق پر ہیں یا باطل پر جواب عام فہم مع دستخط تحریر فرمائیے۔
جواز از احمد رضا خان بریلوی:
یہ سب واہیات و خرافات اور جاہلانہ حماقات و بطلات ہیں ان کا ازالہ لازم ہے۔
احکام شریعت صفحه 51 مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی
ان حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ غیر اللہ کی نذرو نیاز دینا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں سے ثابت ہے غیر اللہ کے لیے ذبح کرنا موجب لعنت ہے اور فقہ حنفی کے حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ نذر غیر اللہ حرام اور باطل ہے الغرض قرآن وسنت سے نذر غیر اللہ ثابت نہیں لہذا اہل ایمان کو چاہیے کے ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جائے تمام تر نذرو نیاز صرف ایک اللہ کے لیے دینی چاہیے۔
اللہ کے فضل سے اب لوگ بہت تیزی سے صحیح بات کو سمجھ رہے ہیں شرک و بدعت کے بادل چھٹ چکے ہیں دین حق کی معرفت ہو رہی ہے۔
بقول شاعر:
آثار سحر کے پیدا ہیں اب رات کا جادو ٹوٹ چکا
ظلمت کے بھیانک ہاتھوں سے تنویر کا دامن چھوٹ چکا
غیراللہ کی نذر و نیاز کے جواز پر قرآنی آیات سے بریلوی استدلال
حفیظ الرحمن قادری صاحب نے اس مضمون کے آخر میں دو قرآنی آیات لکھی ہیں ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ سورہ المائدہ: 87
اے ایمان والو! حرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں کہ اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اللہ کو نا پسند ہیں۔
دوسری آیت:
فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ سورہ الانعام: 118
کھاؤ اس چیز سے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اگر تم اس کی آیتیں مانتے ہو۔
✔ الجواب :
ان آیات مبارکہ کا نذرغیر اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے پہلی آیت میں ہے کہ جس چیز کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے اس کو حرام نہ ٹھہراؤ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے غیر اللہ کی نذرو نیاز کو کہاں حلال قرار دیا ہے جس کو ہم حرام قرار دیتے ہیں قرآن کی کونسی آیت ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی کونسی حدیث ہے جس میں غیر اللہ کی نذرو نیاز کو حلال قرار دیا گیا ہے۔ دوسری آیت میں ہے کہ اللہ کا نام لے کر حلال چیزیں کھاؤ نہ کہ حرام ۔
ہر چیز اللہ کا نام لے کر کھانے سے حلال نہیں ہو جاتی حرام کا ارتکاب کرنے سے بھی حلال چیز حرام ہو جاتی ہے مثلا اگر کوئی کسی کی چوری کر کے حلال چیز کھائے تو وہ حرام ہو جاتی ہے۔ اگر چہ وہ چیز پاکیزہ کیوں نہ ہو اگر کوئی سود کی کمائی کر کے بسم اللہ پڑھ کر کھائے تو دلیل پیش یہ کرے کہ اللہ کا نام جس پر لیا جائے اس کو کھانا حلال ہے تو کوئی عقلمند اس کی اس دلیل کو تسلیم کرے گا ہر گز نہیں لہذ ان آیات کا آپ کے موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
قادری صاحب نے نذر غیر اللہ کے حلال ہونے پر کوئی آیت بطور دلیل پیش کی نہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل پیش کر سکے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غیر اللہ کی نذرو نیاز دیتے تھے بغیر دلیل کے دعوی باطل ہو جاتا ہے۔
اور نہ ہی فقہ حنفی سے نذر غیر اللہ کو حلال ثابت کر سکے ہم نے فقہ حنفی سے اور قرآن سے نذر غیر اللہ کو حرام ثابت کیا ہے اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہو جائے
ان کے ہونٹوں کی خاموشی بھی سند ہو جائے