سوال:
کیا نکاح کے وقت مرد کی خوشحالی یا تنگ دستی کو مدنظر رکھا جا سکتا ہے؟
جواب:
جس مرد سے ناطہ قائم کیا جا رہا ہے، اس کی تنگ دستی یا خوشحالی کو دیکھنا جائز ہے، اس میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں، البتہ یہ معیار نہیں ہونا چاہیے، اصل معیار دین داری اور شرافت ہے، باقی سب چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔
❀ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
”ابو عمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں غیر موجودگی میں تین طلاقیں دے دیں اور اپنے وکیل کے ہمراہ کچھ جو بھیجے، تو وہ (یہ تھوڑے سے جو دیکھ کر) اس سے ناراض ہوئیں۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! ہمارے ذمہ آپ کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور سارا معاملہ آپ کے سامنے پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ان کے ذمہ آپ کا کوئی نفقہ نہیں۔ اسے ام شریک کے گھر عدت گزارنے کا حکم دیا، پھر فرمایا: وہ (ام شریک) ایسی خاتون ہیں کہ اس کے پاس میرے صحابہ بکثرت آتے جاتے ہیں، لہذا آپ ابن ام مکتوم کے گھر عدت گزار لیں، کیوں کہ وہ نابینا آدمی ہیں، اگر آپ کسی وقت (فوری) کپڑے اتار بھی دیں، تو کوئی حرج نہیں اور جب عدت پوری کر لو، تو مجھے اطلاع دینا۔ وہ بیان کرتی ہیں: جب عدت مکمل ہوگئی، تو میں نے آپ کو اطلاع دی کہ سیدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما اور ابو جہم رضی اللہ عنہ نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو جہم تو مارتا بہت ہے اور معاویہ فقیر آدمی ہے، اس کے پاس کوئی مال نہیں، لہذا آپ اسامہ بن زید سے نکاح کر لیں۔ فاطمہ بنت قیس نے کہا: مجھے وہ پسند نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: اسامہ بن زید سے شادی کر لیں۔ میں نے ان سے نکاح کر لیا، اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی خیر و برکت کی کہ میں ان پر رشک کرنے لگی۔
(صحیح مسلم: 1480، المنتقى لابن الجارود: 760)