سوال
مسمیٰ محمد رمضان ولد فضل دین قوم انصاری، سکنہ غلام آباد، مکان نمبر 328 ڈی، تحصیل و ضلع فیصل آباد کا کہنا ہے کہ مجھے ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنا ہے جو درج ذیل ہے:
میری دختر مسمات نسیم اختر کا نکاح مسمیٰ شاہد ندیم ولد فقیر محمد قوم انصاری، سید آباد، مکان نمبر 161، گلی نمبر 5، فیصل آباد سے ڈیڑھ ماہ قبل کیا گیا تھا۔ یہ صرف نکاح ہوا تھا، ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔
نکاح کے دن ہی تنازع پیدا ہوگیا کیونکہ جب برات آئی تو لڑکی کے والدین نے کھانا زمین پر لگایا اور برات کو کھانے کی دعوت دی۔ اس پر دلہا ناراض ہوگیا اور کہنے لگا:
> “ہم کوئی کمی نہیں کہ نیچے بیٹھ کر کھانا کھائیں۔”
اس دوران دلہا نے نامناسب جملے استعمال کیے، چنانچہ کھانا دوبارہ اسٹینڈ پر لگایا گیا۔ اس کے باوجود دلہا نے جھگڑا کیا اور لڑکی والوں سے سخت تکرار ہوئی۔
پھر اس نے میری بیٹی نسیم اختر سے کہا:
> “مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، میری طرف سے اسے طلاق، طلاق، طلاق۔ میں اسے اپنے ہاں آباد نہیں کرسکتا۔”
برادری والوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانا۔ چنانچہ لڑکی واپس والدین کے گھر آگئی۔ والد (یعنی سائل) نے صلح کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ بلکہ شوہر نے علانیہ طور پر کہا کہ وہ اسے اپنے گھر نہیں آباد کرسکتا۔
اب لڑکی اپنے والد کے گھر بغیر رخصتی کے زندگی گزار رہی ہے۔
لہذا سوال ہے:
> کیا شرعاً یہ طلاق واقع ہوچکی ہے یا نہیں؟
تصدیق
ہم حلفاً اللہ کو حاضر و ناظر جان کر تصدیق کرتے ہیں کہ یہ سوال بالکل درست اور حقیقت پر مبنی ہے۔ اگر یہ غلط ثابت ہو تو ہم اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ لہذا شرعی فتویٰ صادر فرمائیں۔
محمد شریف ولد محمد رمضان، قوم انصاری، مکان نمبر 122
حاجی محمد ارائیں ولد خیر دین، قوم انصاری، محلہ غوثیہ
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرطِ صحتِ سوال اور موافقتِ واقعہ، صورتِ مسؤلہ میں طلاق واقع ہوچکی ہے۔
حدیثِ نبوی ﷺ
صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
> عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ»
(صحیح بخاری، باب الطلاق فی الاغلاق والکرہ والنسیان، ج2، ص793-794)
یعنی:
> “اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل کے خیالات معاف فرما دیے ہیں، جب تک وہ ان پر عمل نہ کرے یا زبان سے ادا نہ کرے۔”
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ طلاق صرف نیت یا خیال سے نہیں بلکہ زبان یا تحریر سے ادا کرنے پر واقع ہوتی ہے۔
اقوالِ ائمہ و محدثین
امام ترمذی فرماتے ہیں:
> والْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا حَدَّثَ نَفْسَهُ بِالطَّلَاقِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا حَتَّى يَتَكَلَّمَ بِهِ
(تحفة الاحوذی، ج2، ص215)
اہلِ علم کا اتفاق ہے کہ جب تک شوہر زبان سے طلاق نہ دے، محض دل کے خیال سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
امام ابن قدامہ حنبلی فرماتے ہیں:
> وجملة ذلک أن الطلاق لا یقع إلا بلفظ، فلو نواه بقلبه من غیر لفظ لم یقع فی قول عامة أھل العلم…
(المغنی، ج7، ص394)
یعنی:
طلاق صرف لفظ سے واقع ہوتی ہے، اگر شوہر محض دل میں نیت کرے تو طلاق واقع نہیں ہوتی۔
امام مالک کا مشہور مذہب بھی یہی ہے:
> فالمشھور عن مالک أن الطلاق لا یقع إلا بلفظ ونیۃ.
(بدایة المجتہد، ج2، ص56)
اقوالِ محدثینِ ہند
شیخ الکل سید نذیر حسین اور مولانا عبد الحق محدث ملتانی فرماتے ہیں:
> "جب شوہر شریعت کے مطابق عورت کو طلاق دے گا، خواہ زبانی دے یا تحریری، تو طلاق یقینی طور پر واقع ہوجائے گی۔”
(فتاویٰ نذیریہ، ج3، ص73)
مفتی محمد شفیع حنفی (کراچی) کے نزدیک بھی زبانی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، ج2، ص658)
شرعی حکم
مندرجہ بالا احادیثِ صحیحہ، اقوالِ ائمہ و فقہاء اور جمہور اہلِ علم کے مطابق،
صورتِ مسؤلہ میں چونکہ مسمیٰ شاہد احمد ولد فقیر محمد انصاری نے علانیہ طور پر طلاق، طلاق، طلاق کہا، لہذا طلاق واقع ہوگئی۔
چونکہ یہ طلاق قبل از مساس (رخصتی سے پہلے) دی گئی، اس لیے یہ طلاقِ بائن صغریٰ ہے۔
اس میں عدت نہیں، اور نکاح اسی وقت منقطع ہوگیا۔
قرآنِ مجید سے استدلال
> ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا﴾
(الأحزاب: 49)
یعنی:
> “اے ایمان والو! جب تم مؤمن عورتوں سے نکاح کرو اور ان کو جماع سے پہلے طلاق دے دو تو ان پر کوئی عدت نہیں۔ ان کو کچھ دے دلا کر خوش اسلوبی سے رخصت کرو۔”
اور سورہ بقرہ میں ارشاد ہے:
> ﴿وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ﴾
(البقرة: 237)
یعنی:
> “اگر تم نے جماع سے پہلے طلاق دی اور مہر مقرر کیا ہوا ہے تو عورت کو آدھا مہر ملے گا، الا یہ کہ وہ خود معاف کردے۔”
فقہی وضاحت
سید محمد سابق لکھتے ہیں:
> یقع الطلاق بکل ما یدل علی إنھاءالعلاقة الزوجیة سواء کان ذلک باللفظ أم بالکتابة إلی الزوجة أو بالإشارة…
(فقه السنة، ج2، ص216-217)
یعنی طلاق ہر اس چیز سے واقع ہوجاتی ہے جو علاقۂ زوجیت کے خاتمے کی نشاندہی کرے، چاہے وہ لفظ سے ہو، تحریر سے یا اشارے سے۔
لہذا چونکہ شوہر نے زبان سے واضح طور پر “طلاق، طلاق، طلاق” کہا، تو نکاح ختم ہوگیا۔
اور چونکہ رخصتی نہیں ہوئی تھی، عدت واجب نہیں۔
نتیجہ
یہ جواب بشرطِ صحتِ سوال تحریر کیا گیا ہے۔
یہ محض شرعی حکم کی وضاحت ہے۔
مفتی صاحب کسی قانونی پہلو کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب