نکاح کے احکام ومسائل قرآن و حدیث کی روشنی میں
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

نکاح کی اہمیت

1-حضرت عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ھے کہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جو نکاح کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کرے.
سنن ابن ماجہ حدیث 1846سلسلہ الصحیحہ للالبانی حدیث 2383

2-عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ : قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ؛ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
ترجمہ :”حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلي الله عليه وسلم نے فرمایا:اے جوانوں کی جماعت!! تم میں سے جس میں نکاح کرنے کی استطاعت ہو، اسے شادی کر لینی چاہیے کیوں کہ نکاح نگاہوں کو جھکانے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جو شخص نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اسے روزہ رکھنا اپنے اوپر لازم کرلینا چاہیے ؛ کیوں کہ روزہ انسانی شہوت کو توڑ دیتا ہے۔”
صحیح مسلم حدیث- 1400

3-(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ * وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ)

ترجمہ: اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کا نکاح کر دو (جو غیر شادی شدہ ہیں) اور اپنے نیک غلاموں اور باندیوں کا بھی نکاح کر دو، اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا، اور اللہ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہے. اور جو لوگ نکاح کی طاقت نہیں رکھتے وہ عفت اور پاکدامنی کے ساتھ رہیں، تاآنکہ اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کردے ۔ النور/32-33

4-فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ
ترجمہ
جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو.
سورہ نساء ایت نمبر 3

نکاح کی فضلیت

1–أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَوْنُهُمْ: الْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الْأَدَاءَ، وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ الْعَفَافَ، وَالْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ۔
ترجمہ
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین (طرح کے لوگ) ہیں جن کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم و ضروری کر لیا ہے: (ایک) وہ مکاتب ۱؎ جو مقررہ رقم ادا کر کے آزادی حاصل کر لینے کے لیے کوشاں ہو۔ (دوسرا) ایسا نکاح کرنے والا جو شادی کر کے عفت و پاکدامنی کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہو (تیسرا) وہ مجاہد جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے نکلا ہو.
سنن نسائی حدیث 3220-سنن ابن ماجہ حدیث 2518حسن

2-حضرت ابوامامہؓ بیان کرتے ہیں: ایک طویل حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کی رضا کے لیے نکاح کیا، تو اس نے اپنے ایمان کو مکمل کیا۔ (اَلْاِعْتِقَاد لِلْبَیْہَقِی، ص: 178)،

3-حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس کو اللہ تعالیٰ نے نیک بیوی عطا کی تو اس نے نصف دین پر اس کی مدد فرمائی، پس بقیہ نصف دین کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے۔
مستدرک حاکم حدیث 2681

4-عن أنس بن مالك يقول: سمعت رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (يقول): ” من أراد أن يلقى الله طاهرًا مُطَهَّرًا، فليتزوج الحرائر
ترجمہ
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس کو اللہ تعالیٰ سے پاک صاف ہو کر ملنے کا ارادہ ہے تو چاہئیے کہ وہ آزاد عورتوں سے شادی کرے“
ابن ماجہ حدیث۔ 1862
وله شاھد عند البخاري في التاريخ الکبير (404/8)
(تحفة الأشراف: 921، ومصباح الزجاجة: 662)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/225، 493)
ضعفه الألباني في الضعيفة برقم (١٤١٧)

3-جو جان بوجھ کر /استطاعت کے باوجود/شادی نہ کریں وہ گناہ گار ھے۔
جیسا کہ
1-حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ قَالَ: حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي، وَتَزَوَّجُوا، فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ، وَمَنْ كَانَ ذَا طَوْلٍ فَلْيَنْكِحْ، وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَعَلَيْهِ بِالصِّيَامِ، فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ»
ترجمہ . ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نکاح میرا طریقہ ہے۔ اور جو شخص میرے طریقے پر عمل نہیں کرتا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ شادیاں کیا کرو کیونکہ میں تمہاری کثرت کی بنا پر دوسری امتوں پر فخر کروں گا، جو (مالی طور پر) استطاعت رکھتا ہو وہ (ضرور) نکاح کرے اور جسے (رشتہ) نہ ملے، وہ روزے رکھا کرے کیونکہ روزہ خواہش کو کچل دیتا ہے۔
سنن ابن ماجہ حدیث 1846

2-وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلُوا أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَمَلِهِ فِي السِّرِّ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا أَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا آكُلُ اللَّحْمَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا أَنَامُ عَلَى فِرَاشٍ، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ. فَقَالَ: «مَا بَالُ أَقْوَامٍ قَالُوا كَذَا وَكَذَا؟ لَكِنِّي أُصَلِّي وَأَنَامُ، وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي»
ترجمہ
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے نبی ﷺ کی ازواج مطہرات سے آپ کی تنہائی کے معمولات کے بارے میں سوال کیا، پھر ان میں سے کسی نے کہا: میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا، کسی نے کہا: میں گوشت نہیں کھاؤں گا، اور کسی نے کہا: میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ (آپ کو پتہ چلا) تو آپ ﷺ نے اللہ کی حمد کی، اس کی ثنا بیان کی اور فرمایا: "لوگوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے اس اس طرح سے کہا ہے۔ لیکن میں تو نماز پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں، روزے رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، جس نے میری سنت سے رغبت ہٹا لی وہ مجھ سے نہیں۔
صحیح مسلم حدیث 1401-صحیح ابن حبان حدیث 14

3-حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ، وَزَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «نَهَى عَنِ التَّبَتُّلِ». زَادَ زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ: وَقَرَأَ قَتَادَةُ: {وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً}
[الرعد: 38]
ترجمہ
حضرت سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بے نکاح رہنے سے منع فرمایا۔ زید بن اخزم نے یہ اضافہ بھی بیان کیا ہے کہ حضرت قتادہ ؓ نے (اس مسئلے کو واضح کرنے کے لیے) یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَلَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا رُ‌سُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَ‌ٰجًا وَذُرِّ‌يَّةً ۚ﴾ ’’اور یقینا ہم نے آپ سے پہلے رسول بھیجے اور ان کو بیویوں اور اولاد والا بنایا۔‘‘
سنن ابن ماجہ حدیث 1849-سنن نسائی حدیث3215

4-ھاشمی خواتین کی غیر ہاشمی مردوں سے شادی کرنا کیسا ھے۔
منکر امور میں سے ایک یہ امر بھی ھے کہ بعض لوگ جو بنوہاشم میں سے ہونے کے مدعی ھیں وہ کہتے ھیں کہ کوئی آدمی ان کے ھم بلہ اور ھم پایا نہیں ہو سکتا لہذا وہ نہ دوسرے خاندان کے لوگوں کو رشتے دیتے ہیں اور نہ ان سے رشتے لیتے ھیں حالانکہ یہ بہت بڑی غلطی بہت بڑی جہالت اور عورت کے لئے ظلم اور ایک ایسی بات ھے جس کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے حکم نہیں دیا بلکہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں ہاشمی خواتین کی غیر ہاشمی مردوں سے شادیاں ہوتی تھی جن کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے۔

(1) : سیدہ عورت کا غیر سید سے نکاح بلا شبہ جائز ہے اس میں قطعاً کوئی قباحت نہیں جیسا کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بنت رسول ﷺ حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں اور حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ مروجہ اصطلاح کے مطابق سید نہ تھے اور غالباً ہاشمی بھی نہ تھے جیساکہ صحیح البخاری میں تصریح ہے ۔(۲: ابن کثير:ج۱ص۲۳۲ )

2 – اور اسی طرح حضرت نبی کریمﷺ کی دو بیٹیاں سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہ یکے بعد دیگرے حضرت عثمان بن عفان اموی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں اور ظاہر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آپﷺکی اصطلاح کے مطابق سید نہ تھے۔بلکہ وہ ہاشمی بھی نہ تھے اور یہ واقعات ایسے مشہور ہیں کہ ان کے حوالہ جات کی بھی ضرورت نہیں ۔ احادیث واسیر تاریخ اسلام پر مشتمل تمام معتبر کتب میں مرقوم اور مصرح ہیں۔(۱: تاریخ ابن کثیر : ج ۱ ص ۲۳۲)

3-سیدہ ام کلثوم بنت علی جو سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہ کے بطن سے تھیں ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نطفہ سے زید بن عمر تولد ہوئے تھے جوکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تک زندہ رہے۔(صحیح بخاری : حمل النساء القرب الی لناس فی الغرو،ج۱ ص ۴۱۳ و باب ذکر ام سلبط ج۲ ص ۵۸۲ نیز کتب شیعہ احتجاج طبرسی) طوسی کی توضیح الاحکام اور استبصار اور مجالس المومنین ملاحظہ فرمائیں ۔مزید کہ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی آیت یا حدیث نہیں ہے جس میں سیدہ عورت کو غیر سید مرد کے ساتھ نکاح کرنے سے منع کر دیا گیا ہو ۔ بڑائی کی بنیاد نسل و نسب اور خاندانی امتیاز نہیں بلکہ تقویٰ ہے۔

رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی زینب بنت جحش رضی اللہ عنہ کا نکاح زید سے کردیا تھا جسکا ذکر سورۃ الاحزاب میں موجود ھے حالانکہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ غلام تھے اور بی بی زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا قریشی خاندان سے تعلق رکھتی تھی ،اس طرح علی بن حسین رضی اللہ عنہ جو زین العابدین کے نام سے معروف تھے ان کا نکاح شہربانو بنت یزید بن شہریار سے ہوا تھا جو کے غیر سید تھی انظر سیرت حسین اور ان کے کارنامے۔

نوٹ
قرآن وحدیث میں یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے قطعاً یہ بات ثابت نہیں ھے کہ ھاشمی عورت غیر ہاشمی مرد سے نکاح نہیں کرسکتی اور نہ ھی یہ بات لکھی ہے کہ ہاشمی مرد کسی غیر ہاشمی عورت سے نکاح نہیں کرسکتا بلکہ شیعہ سنی کتب میں اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطہر رضوان اللہ علیہم اجمعین سے چلی ارہی ہے کہ ہاشمی مرد غیر ہاشمی عورت سے نکاح کرسکتا ہے اور ہاشمی عورت غیر ہاشمی مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔
تنبیہ جیسا کہ قرآن وحدیث اور صحابہ کرام واہل البیت رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

نکاح کی اقسام

۱–نکاح مسنونہ

ولی کی سرپرستی میں عمر بھر رفاقت نبھانے کی نیت سے کیا نکاح مسنون کہلاتا ھے جو کہ جائز ھے۔

حضرت عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں جس طریقے سے اج بھی لوگ نکاح کرتے ھیں ایک مرد دوسرے مرد (ولی)کی طرف اس کی بیٹی یا رشتہ دار عورت کے لئے نکاح کا پیغام بھیجتا ھے وہ (ولی)مہر مقرر کرتا اور (اپنی بیٹی یا اپنی رشتہ دار )عورت سے نکاح کردیتا ھے۔
صحیح البخاری حدیث (5127)

٢–نکاح شغار وٹہ سٹہ

ایک ادمی اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح اس شرط پر دیتا ھے کہ دوسرا بھی اسے اپنی بیٹی کا نکاح دے خواہ اس پر مہر کا ذکر کریں یا نہ کریں یہ نکاح حرام ھے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا ہے۔ ابن نمیر (راوی) نے یہ اضافہ روایت کیا ہے: اور شغار یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی سے کہے: تم اپنی بیٹی کا نکاح میرے ساتھ کرو اور میں اپنی بیٹی کا نکاح تمھارے ساتھ کرتا ہوں یا اپنی بہن کا نکاح میرے ساتھ کرو اور میں اپنی بہن کا نکاح تمھارے ساتھ کرتا ہوں۔
[صحيح مسلم: 1416، دارالسلام: 3469]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے، اور شغار یہ ہے کہ آدمی دوسرے شخص سے اپنی بیٹی کی شادی اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اس شخص کے ساتھ کرے۔ اور دونوں ہی بیٹیوں کا کوئی مہر مقرر نہ ہو۔
[سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3339]

نوٹ
(1) نکاح شغار یا متبادل شادیوں سے مراد وہی صورت ہے جو پنجاب میں ”وٹہ سٹہ“ کے نام سے معروف ہے۔
اس کی تفسیر روایت میں ذکر ہو چکی ہے۔

(2) نکاح شغار میں یہ خرابی ہے کہ اگر ایک طرف میاں بیوی میں ناچاقی ہوئی ہے تو دوسری طرف اس کا بدلہ چکانے کی کوشش کی جاتی ہے حتیٰ کہ دونوں میں سے اگر ایک مرد کسی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو دوسرا بھی اپنی بے قصور بیوی کو طلاق دے دیتا ہے۔

(3) جاہلیت میں نکاح شغار میں حق مہر کا تعین نہیں کیا جاتا تھا۔
نہ مہر مثل ہی ادا کیا جاتا تھا۔
گویا عورت کا عورت سے تبادلہ ہوتا تھا۔
آج کل اگرچہ حق مہر مقرر کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہ خرابی بددستور رہتی ہے کہ ایک مرد کی زیادتی کا بدلہ اس کی بیٹی پر زیادتی کر کے اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس لیے اس صورت سے بھی اجتناب ہی کرنا چاہیے
تنبیہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اسلام میں شغار نہیں‘‘۔
صحیح مسلم حدیث 3468

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے