سوال:
کیا شادی کے موقع پر نکاح کرتے وقت دلہا سے یہ کہنا لازمی ہے کہ کیا تو راضی ہے، یا تو نے قبول کیا؟ یا نکاح میں دینے والا صرف یہ کہہ دے کہ میں نے اتنے مہر کے ساتھ اس لڑکی کو تیرے نکاح میں دے دیا؟ کتاب و سنت کی رو سے واضح فرمائیں۔
جواب:
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: ”یا رسول اللہ! میں اپنا نفس آپ کو ہبہ کرنے کے لیے آئی ہوں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف نظر دوڑائی، نگاہ اوپر اٹھائی، پھر نیچے کر لی، پھر اپنے سر کو نیچے کر لیا۔ جب عورت نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک نے کھڑے ہو کر کہا: ”اے اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس عورت کی حاجت نہیں ہے تو اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔“ آپ نے کہا: ”کیا تیرے پاس کچھ ہے؟“ کہنے لگا: ”اللہ کی قسم! نہیں، اے اللہ کے رسول!“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے گھر جا کر دیکھ، کیا تجھے کوئی چیز ملتی ہے؟“ وہ چلا گیا، پھر واپس آکر کہنے لگا: ”اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم مجھے کچھ نہیں ملا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تلاش کرو، اگرچہ لوہے کی کوئی انگوٹھی ہی ہو۔“ وہ گیا اور واپس آکر کہنے لگا: ”یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ہے، لیکن یہ میرا تہبند ہے۔“ سہل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”اس کے پاس دوسری چادر بھی نہیں تھی۔“ وہ کہنے لگا: ”اس عورت کو آدھا تہبند دے دوں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اپنے تہبند کے ساتھ کیا کرے گا؟ اگر تو اسے پہن لے گا تو اس عورت کے اوپر کچھ نہیں رہے گا اور اگر وہ اسے لے گی تو تیرے اوپر کچھ نہیں ہو گا۔“ وہ صحابی بیٹھ گیا، یہاں تک کہ مجلس نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہوگئی، پھر کھڑا ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس جاتے ہوئے دیکھ لیا، اسے واپس بلایا گیا، جب وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”تیرے پاس قرآن مجید کا کتنا حصہ ہے؟“ کہنے لگا: ”فلاں فلاں سورتیں میرے پاس ہیں۔“ اور وہ سورتیں گننے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم ان سورتوں کو زبانی پڑھ سکتے ہو؟“ کہنے لگا: ”ہاں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اس عورت کا نکاح تیرے ساتھ اس قرآن کے بدلے کر دیا جو تمہارے پاس ہے۔“
(بخاری، کتاب النکاح، باب النظر إلی المرأۃ قبل التزویج (5141/5126)، مسلم (1425)، المتقی لابن الجارود (1716)، ابن ماجہ (1889))
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ایک باب یوں باندھا ہے:
إذا قال الخاطب للولي زوجني فلانه فقال قد زوجتك بكذا وكذا فاز النكاح وإن لم يقل الزوج أرضيت أو قبلت
”اگر مرد نے لڑکی کے ولی سے کہا کہ فلاں لڑکی سے میرا نکاح کر دو اور اس نے کہا میں نے اتنے مہر پر تیرا نکاح اس سے کر دیا تو نکاح ہو گیا، اگرچہ اس نے مرد سے یہ نہیں کہا کہ تم اس پر راضی ہو، یا تم نے قبول کیا؟“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد کا کسی سے نکاح کی درخواست کرنا، یا شادی کے لیے آنا قبول کرنے کے قائم مقام ہے، اب اس کے بعد اظہار قبول لازمی نہیں ہے۔ جیسے کوئی شخص کسی سے کہہ دے کہ فلاں چیز سو (100) روپے میں مجھے بیچ دو، اس نے کہا میں نے بیچ دی تو بیع ہو جائے گی، اب اس بات کی حاجت نہیں کہ خریدار کہے کہ میں نے قبول کر لی۔