نکاح میں زیادہ سے زیادہ بیویوں کی حد قران و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

دو دو، تین تین، چار چار عورتوں سے نکاح کر سکتے ہو سے کیا مراد ہے؟

جواب:

❀ فرمان باری تعالیٰ ہے:
فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ
(النساء: 3)
جتنی عورتوں سے چاہو نکاح کرو، دو دو سے، تین تین سے، چار چار سے۔
❀ علامہ ابن بطال رحمہ اللہ (449ھ) فرماتے ہیں:
علامہ ابن قصار رحمہ اللہ کہتے ہیں کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ عقد میں بیک وقت چار سے زائد بیویاں رکھے۔ ہمارے مطابق اس پر اجماع ہے۔ بعض لوگ، جن کے اختلاف کی کوئی حیثیت نہیں، کہتے ہیں: بیک وقت نو بیویاں رکھی جا سکتی ہیں، ان کا استدلال یہ ہے کہ آیت کریمہ: مثنى وثلاث ورباع کے مطابق اس عدد کو جمع کرنا جائز ہے، دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں۔ ہمارے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسوہ حسنہ ہیں۔ جماعت حقہ کی دلیل یہ ہے کہ مفسرین کا اتفاق ہے کہ آیت: مثنى وثلاث ورباع میں تینوں عددوں میں تخیر مراد ہے، نہ کہ ان کو جمع کرنا۔ اگر اس سے نو کا عدد مراد ہوتا، تو ایک مختصر لفظ (نو) سے عدول اختیار نہ کیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ فرما دیتا: نو عورتوں سے نکاح کر لو۔ جبکہ عرب نو کا عدد چھوڑ کر دو، تین اور چار کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ لہذا فرمان باری تعالیٰ: مثنى وثلاث ورباع کا پوشیدہ معنی یہ ہے کہ دو دو، تین تین، چار چار۔ اس سے تخیر مراد ہے۔ جیسا کہ اس فرمان باری تعالیٰ میں تخیر مراد ہے:
أُولِي أَجْنِحَةٍ مَثْنَى وَثَلَاثَ وَرُبَاعَ
(فاطر: 1)
دو دو، تین تین اور چار چار پروں والے (فرشتے)۔ رہا ان کا یہ قول کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت نو بیویاں تھیں اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا چاہیے، تو ہم کہتے ہیں کہ چار سے زائد بیویاں رکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا۔
(شرح صحیح البخاری: 190/7)
❀ علامہ قرطبی رحمہ اللہ (671ھ) فرماتے ہیں:
جان لیجئے کہ دو، تین اور چار کے عدد سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نو بیویاں رکھنا جائز ہے، جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے، یہ لوگ کتاب وسنت کے فہم سے دور ہیں اور اسلاف امت کے منہج سے منحرف ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ واؤ جمع کے لیے ہے، ساتھ یہ دلیل دیتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیک وقت نو بیویوں کو اپنے عقد میں جمع فرمایا ہے۔ جہالت پر مبنی یہ موقف روافض اور بعض اہل ظاہر کا ہے، انہوں نے نو کے لفظ کو اثنین بنا دیا ہے، اسی طرح ثلاث اور رباع کو بھی۔ بعض اہل ظاہر نے تو اس سے بھی فتیح حرکت کی ہے، انہوں نے اٹھارہ بیویوں کا جواز پیش کر دیا ہے، استدلال یہ ہے کہ ان الفاظ کا معنی تکرار کا ہے اور واؤ جمع کے لیے ہے، انہوں نے مثنیٰ کا معنی دو دو کیا، اسی طرح ثلاث اور رباع کا معنی بھی۔ یہ سب لغت اور سنت سے جہالت کا نتیجہ ہے اور اجماع امت کی مخالفت ہے۔ کیونکہ کسی بھی صحابی اور تابعی سے منقول نہیں کہ اس نے بیک وقت عقد میں چار سے زائد بیویاں رکھی ہوں۔ رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نو بیویوں کا جواز تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے، جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں اس پر بیان ہوگا۔ اب رہا ان کا کہنا کہ یہاں واؤ جمع کے لیے ہے، تو اگرچہ یہ بھی استعمال ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے عرب کو فصیح ترین لغت کے ساتھ خطاب کیا ہے، عرب تسعہ کا لفظ ترک کر کے اثنین، ثلاثہ واربعہ (دو، تین اور چار) نہیں کہتے۔ اسی طرح اہل عرب اس شخص سے قباحت کا اظہار کرتے ہیں، جو اٹھارہ کا لفظ بولنے کی بجائے کہتا ہے: فلاں کو چار، چھ اور آٹھ (درہم) دیجئے۔ دراصل یہاں واؤ بدل کے لیے ہے۔ یعنی دو کی بجائے تین سے نکاح کر لو، تین کی بجائے چار سے نکاح کر لو۔ اسی لیے واؤ کے ساتھ عطف ڈالا، نہ کہ واؤ کے ساتھ۔
(تفسیر القرطبی: 17/5)
❀ حافظ بغوی رحمہ اللہ (541ھ) فرماتے ہیں:
اتفقت الامة على ان الحر يجوز له ان ينكح اربع حرائر
امت کا اجماع ہے کہ آزاد مسلمان کے لیے بیک وقت چار آزاد عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے۔
(شرح السنہ: 61/9)
❀ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774ھ) فرماتے ہیں:
مجمع عليه بين العلماء
اس پر اہل علم کا اجماع ہے (کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ چار بیویاں رکھ سکتا ہے)۔
(تفسیر ابن کثیر: 209/2)
اسلام نے چار سے زائد بیویاں رکھنے کی بالکل اجازت نہیں دی، اس لیے جو کافر مسلمان ہو جائے اور اس کی چار سے زائد بیویاں ہوں، تو ان میں سے جو چار سے زیادہ پسند ہوں، انہیں رکھ لے، باقی بیویوں کو چھوڑ دے۔
امام مالک رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
سیدنا غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے، ان کے نکاح میں دس بیویاں تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم فرمایا کہ ان میں سے چار رکھ لیں۔
(سنن الدارقطنی: 271/3، المعجم الأوسط للطبرانی: 1680، السنن الکبری للبیہقی: 183/7، أخبار أصفهان لأبی نعیم الأصبهانی: 295/1، وسنده صحیح)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رجال إسناده ثقات
اس کی سند کے سارے راوی ثقہ ہیں۔
(التلخیص الحبیر: 169/3)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے