سوال :
میں نے آج سے سات سال پہلے شادی کی، اس وقت میری بیوی نے نکاح نامے پر دستخط کر کے اپنی رضامندی کا اظہار کیا، دیگر کئی ذرائع سے بھی اس کی رضامندی اور خوشی معلوم کر لی گئی تھی۔ ثبوت کے طور پر نکاح نامہ اور دیگر اوراق ارسال کر رہا ہوں، مگر اب اس نے عدم رضامندی اور اس نکاح کے غیر صحیح ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے۔ ایسی صورت حال میں شریعت مطہرہ کیا رہنمائی کرتی ہے، براہ کرم اس معاملہ میں میری مدد فرما ئیں؟
جواب :
ہم آپ کو یہ خبر دینا چاہتے ہیں کہ جو اوراق اور نکاح نامہ وغیرہ آپ نے ہماری طرف ارسال کیے ہیں ان کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ لڑکی نے نکاح کے وقت واضح طور پر رضامندی اور خوشی کا اظہار کیا تھا۔ وہ سات سال سے آپ کے ساتھ رہ رہی ہے۔ ان گواہیوں اور دلائل کو دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا نکاح بالکل صحیح ہے، اس کو فاسد کہنا غلط ہے۔ آپ نے جو بعض اوراق ساتھ بھیجے ہیں، جن میں لڑکی کی عدم رضامندی ظاہر کی گئی تو ہماری سمجھ میں دو صورتیں آتی ہیں، ایک یہ کہ لڑکی پہلے شادی پر راضی نہیں تھی مگر نکاح سے قبل اس نے رضا مندی کا اظہار کر دیا، جیسا کہ دوسرے اوراق گواہیوں اور اس کے دستخطوں سے ظاہر ہے۔ دوسری صورت یہ کہ وہ پہلے راضی تھی ، شادی ہونے کے بعد اس نے عدم رضا مندی کا اظہار کر دیا۔
ان دونوں صورتوں میں ہم اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اس کا آپ کے ساتھ طویل مدت تک رہنا اس کے راضی ہونے کی دلیل ہے، ورنہ اتنا عرصہ وہ قطعاً آپ کے ساتھ نہ رہتی۔ مزید یہ کہ نکاح نامہ اور دیگر اوراق اس بات کو تقویت دیتے ہیں۔ اس لیے یہ نکاح صحیح اور نافذ ہے، اس کو فاسد یا غیر صحیح کہنا غلط ہے۔ لیکن اس صورتحال میں ہم کہنا چاہیں گے کہ اگر آپ کے حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ اکٹھے رہنا محال ہے اور مقامی علماء نے خلع کا مشورہ دیا ہے تو خلع کر لینے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اسی میں بہتری اور بھلائی ہے۔