نکاح متعہ کا کیا حکم ہے؟ احادیث کی روشنی میں
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

نکاح متعہ کا کیا حکم ہے؟

جواب:

شریعت محمدیہ ایک کامل و مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس میں تاقیامت تبدیلی کی گنجائش نہیں، کیونکہ مختلف ادوار و حالات میں متغیر قوانین کو اسلام نے مستقل کر دیا ہے۔ زمانہ نزول وحی سے لے کر قیامت تک کے لیے ٹھوس دستور زندگی عطا فرمایا۔ یہ کمال ہی کا تقاضا تھا کہ صرف افراد کو نہیں، بلکہ پورے معاشرے کو پیش نظر رکھ کر قوانین مرتب کر دیے گئے۔ جن کاموں سے معاشرے میں خرابی واقع ہوتی تھی، انہیں بتدریج حیات سے نکالا گیا۔ شراب کی مثال لے لیں، کیسے غیر محسوس انداز میں مسلم معاشرہ اس سے پاک کیا گیا۔ پہلے فوائد کی نسبت اس کی خرابیاں زیادہ ہونے کا بتا کر اس سے عمومی نفرت کا رجحان پیدا کیا، پھر نمازوں کے اوقات میں نشہ منع فرما کر اس کی لت ختم کی، آخر میں اسے مستقل حرام قرار دے دیا گیا۔
نکاح متعہ بھی انہی بیماریوں میں سے ہے، جنہیں اسلام نے اصلاح معاشرہ کی خاطر ابدی طور پر شریعت سے نکال دیا ہے۔ جیسے شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے شراب پی جاتی رہی، اسی طرح تدریجی حکمت عملی کے تحت نکاح متعہ بھی ایک وقت تک جائز رہا، پھر اسے قیامت تک کے لیے حرام قرار دے دیا گیا اور اس کی جگہ شرعی نکاح ہی حتمی اور لازمی اصول بنا دیا گیا۔
جس طرح حرمت سے پہلے شراب نوشی کے واقعات کو دلیل بنا کر شراب حلال قرار دینا جائز نہیں، اسی طرح کسی مسلمان کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ حرمت متعہ سے پہلے پیش آنے والے عہد نبوی کے واقعات کو دلیل بناتے ہوئے اب بھی نکاح متعہ کے جواز پر اصرار کرے۔
نکاح متعہ کے فرد اور معاشرے پر نہایت مضر اثرات تھے، جن کی بنا پر اسے قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا۔ اس کے مقابلے میں شرعی نکاح کو رائج کیا گیا، جو مفاسد سے بالکل خالی اور فرد و معاشرے کے لیے بے شمار فوائد کا حامل ہے۔
شرعی نکاح کا اہم مقصد عفت و عصمت کا تحفظ ہے، جو کہ نکاح متعہ سے حاصل نہیں ہوتا، نیز شرعی نکاح میں اہم جزو دوام و استمرار ہے، جو کہ متعہ میں نہیں پایا جاتا۔ شرعی نکاح کا اہم فائدہ محبت و مودت اور سکون ہے، جو کہ نکاح متعہ میں ناپید ہے۔ شرعی نکاح میں بیک وقت ایک سے زائد بیویوں کا تصور تو ہے، لیکن ایک سے زائد خاوندوں کا تصور قطعاً نہیں، جبکہ نکاح متعہ میں ایک سے زائد خاوندوں کا تصور واضح طور پر پایا جاتا ہے۔ ایک عورت کے لیے نکاح متعہ کے ذریعے ایک ہی دن میں بیسیوں افراد سے منہ کالا کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔
نکاح متعہ کے ذریعے معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے اور انسانوں میں بہیمانہ رویے پروان چڑھتے ہیں۔ ایک عورت جب نکاح متعہ کے ذریعے کئی مردوں سے تعلق رکھتی ہے، تو کیا معلوم اس کی کوکھ میں پلنے والا بچہ کس کا ہے؟ ایسے بچے عام طور پر خونخوار درندے ہی بنتے ہیں، پر امن شہری نہیں بن پاتے۔ نکاح متعہ میں ولی کے حقوق بھی پامال ہوتے ہیں۔ عصمت جو انسانیت کا جوہر ہے، ختم ہو جاتی ہے اور ماحول میں آوارگی پھیلتی ہے۔ نکاح متعہ کی بے شمار قباحتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے شادی شدہ خواتین بھی بدکاری کی راہ اختیار کر لیتی ہیں۔
❀ ابو جعفر محمد بن حسن طوسی رحمہ اللہ (460ھ) نے لکھا ہے:
ليس على الرجل ان يسالها هل لها زوج ام لا
نکاح متعہ کرنے والے مرد کے لیے عورت سے یہ پوچھنا بھی ضروری نہیں کہ اس کا کوئی خاوند ہے یا نہیں؟
(النهاية، ص 490)
اتنی قباحتوں کے باوجود نکاح متعہ شیعہ مذہب کا بنیادی جزو ہے۔ شیعہ فقیہ محمد بن حسن الحر العاملی رحمہ اللہ (1104ھ) نے لکھا ہے:
ان اباحة المتعة من ضروريات مذهب الامامية
نکاح متعہ کو جائز قرار دینا امامی شیعوں کی مذہبی ضرورت ہے۔
(وسائل الشيعة: 7/245)
نکاح متعہ باطل ہے:
امت مسلمہ کا اتفاق و اجماع ہے کہ نکاح متعہ یا وقتی نکاح منسوخ و باطل ہے اور شریعت اسلامیہ میں نکاح متعہ تا قیامت حرام ہو چکا ہے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ منتخب ہوئے، تو آپ نے خطبہ دیا: لوگو! بلاشبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین دفعہ متعہ کی اجازت دی تھی، پھر اسے حرام کر دیا تھا۔ اللہ کی قسم! مجھے جس شادی شدہ کے بارے متعہ کرنے کا علم ہوا، اسے ضرور رجم کر دوں گا۔ ہاں، اگر وہ چار گواہ پیش کر دے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام کرنے کے بعد حلال کر دیا تھا، تو چھوڑ دوں گا۔
(سنن ابن ماجه: 1963، مسند البزار: 183، وسنده حسن)
❀ حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (463ھ) فرماتے ہیں:
قد يعلم بالاجماع
متعہ کی حرمت اجماع سے ثابت ہے۔
(الفقيه والمتفقه: 1/339)
❀ علامہ ابو الفتح نصر بن ابراہیم مقدسی رحمہ اللہ (490ھ) فرماتے ہیں:
یہ بات ہمارے ذکر کیے ہوئے دعوی اجماع کی صحت پر دلیل ہے، کیونکہ ان آثار میں ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے متعہ کی حرمت بر سر منبر بیان فرمائی، اس فعل سے ڈرایا اور اسے گمراہی قرار دیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ حرام قرار دے کر اس سے منع فرما دیا تھا۔ یہ ساری رویداد مهاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں انجام پائی تھی، لیکن کسی نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے معارضہ کیا، نہ آپ کی بات رد کی، حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حق کا اظہار کرنے، واجب کو بیان کرنے اور غلطی کو رد کرنے پر حریص تھے، جیسا کہ ان کی یہ صفت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیان کی ہے۔ دیکھا نہیں کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے حج تمتع اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے حاملہ کو رجم کرنے کے بارے میں معارضہ کیا تھا؟ وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسے مضبوط ایمان والے لوگوں سے دین کے حوالے سے مداہنت اور غلط بات سن کر خاموشی ممکن نہیں، خصوصاً ایسے معاملہ میں، جو شریعت سے تعلق رکھتا ہو اور جسے تاابد شریعت میں موجود رہنا ہو۔ جب تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش ہو گئے اور کسی نے انکار نہیں کیا، تو معلوم ہوا کہ یہی حق ہے اور متعہ کا منسوخ اور حرام ہونا ہی شریعت میں ثابت ہے، جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک تھا۔ یہ معاملہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعہ کے حرام اور منسوخ ہونے کا اقرار کرنے کے مترادف ہے، لہذا یہ تاابد حرام ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے اس بارے میں احادیث بیان کی ہیں۔ متعہ کا حرام ہونا سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حق واضح ہو جانے اور متعہ کی حرمت پر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہنچنے پر متعہ کے جواز سے رجوع فرما لیا تھا۔ یہی مذہب تمام تابعین، فقہائے کرام اور ائمہ دین کا ہے۔ اگر بالفرض متعہ کو صرف ایک صحابی حرام قرار دیتا اور کوئی دوسرا صحابی اس کا مخالف نہ ہوتا، تو ہم پر اس صحابی کے قول و علم کی پیروی لازم تھی، کیونکہ صحابی ایسی بات ٹھوس علم کی بنیاد پر ہی کہہ سکتا ہے۔ حرمت متعہ پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہو چکا ہے۔ اب جو ان کی مخالفت میں نکاح متعہ کو حلال سمجھے، وہ اجماع کا مخالف اور حق و صواب کا دشمن ہے۔
(تحريم نكاح المتعة، ص 77)
❀ علامہ فخر رازی رحمہ اللہ (601ھ) لکھتے ہیں:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حرمت متعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک مجمع میں کی اور کسی صحابی نے ان پر نکیر نہیں کی۔ اس صورت حال میں تین باتیں کہی جا سکتی ہیں: پہلی بات یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو متعہ کی حرمت کا علم تھا، لہذا خاموش ہو گئے۔ یا دوسری بات یہ کہ انہیں متعہ کی اباحت معلوم تھی، لیکن مداہنت کی وجہ سے خاموش رہے۔ یا تیسری یہ کہ انہیں متعہ کی حرمت یا اباحت کے بارے میں علم ہی نہ تھا، لہذا انہوں نے توقف کیا اور خاموش رہے۔ پہلی بات ہی درست ہے، دوسری بات سے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر لازم آتی ہے، کیونکہ جو شخص جانتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کو مباح قرار دیا ہے، پھر وہ بغیر نسخ کی دلیل کے کہے کہ یہ حرام ہے، وہ تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتا ہے اور جسے اس کی غلطی اور کفر کا علم ہو، پھر بھی وہ اس کی تصدیق کرے، تو وہ بھی کافر ٹھہرے گا۔ یوں ساری امت کی تکفیر لازم آئے گی اور یہ فرمان باری تعالیٰ:
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ
(آل عمران: 110)
تم بہترین امت ہو۔
کے خلاف ہے۔ تیسری بات کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو متعہ کی حرمت یا اباحت کا علم ہی نہ تھا، اس لیے خاموش ہو گئے، یہ بھی باطل ہے، کیونکہ بالفرض اگر متعہ جائز ہے، تو یہ نکاح کی طرح ہی ہوگا، لہذا جس طرح لوگ نکاح کی معرفت کے محتاج ہیں، اسی طرح متعہ کی معرفت کے بھی محتاج ہوں گے۔ اس طرح کا معاملہ مخفی رہنا ممکن نہیں، بلکہ ضروری ہے کہ اس کے بارے میں علم مشہور و معروف ہو۔ جس طرح سب کو علم تھا کہ نکاح مباح ہے اور اس کی اباحت منسوخ نہیں، اسی طرح متعہ کے بارے میں علم ہونا بھی ضروری تھا۔ جب یہ آخری دونوں باتیں باطل ہیں، تو ثابت ہو گیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر انکار کرنے سے صرف اس لیے خاموش رہے کہ انہیں اسلام میں متعہ کے منسوخ ہو جانے کا علم تھا۔
(تفسير الرازي: 3/287)
❀ امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ (150-224ھ) فرماتے ہیں:
مسلمانوں کا اجماع ہے کہ نکاح متعہ منسوخ اور حرام ہے۔ کتاب و سنت نے اسے منسوخ کیا ہے۔ کسی صحابی سے نکاح متعہ کی رخصت منقول نہیں، ہاں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جواز کے قائل تھے، آپ کا رجوع بھی ثابت ہے۔
(الناسخ والمنسوخ، ص 80)
❀ امام ابن منذر رحمہ اللہ (319ھ) فرماتے ہیں:
اوائل میں متعہ کی رخصت ملتی ہے۔ لیکن اب میں نہیں جانتا کہ سوائے رافضیوں کے کسی نے اسے جائز قرار دیا ہو۔ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف قول کا کوئی وزن نہیں۔
(الإشراف: 1/61، فتح الباري لابن حجر: 9/78)
❀ امام ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ (321ھ) فرماتے ہیں:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں عورتوں سے متعہ کرنے سے منع فرمایا۔ کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جمیع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم متعہ کی ممانعت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہمنوا تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ اجماع متعہ کی منسوخیت پر واضح دلیل و برہان ہے۔
(شرح معاني الآثار: 3/26)
❀ علامہ ابو بکر جصاص رحمہ اللہ (370ھ) لکھتے ہیں:
ہم نے متعہ کی اباحت کے بعد اس کی حرمت پر کتاب و سنت کے دلائل اور سلف کا اجماع بیان کر دیا ہے۔ اس بارے خیر القرون میں کوئی اختلاف نہ تھا، جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ نیز تمام علاقوں کے فقہائے کرام نے اس کی حرمت پر اتفاق ہے، وہ اس بارے میں قطعاً اختلاف نہیں کرتے ہیں۔
(أحكام القرآن: 2/153)
❀علامہ خطابی رحمہ اللہ (388ھ) لکھتے ہیں:
متعہ کی حرمت پر مسلمانوں کا اجماع ہے، سوائے بعض شیعہ کے۔ ان کے قواعد و ضوابط کے مطابق بھی یہ درست نہیں، کیونکہ یہ لوگ اختلافی مسائل میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے اہل بیت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے متعہ کی منسوخیت ثابت ہے۔ حافظ بیہقی رحمہ اللہ نے (السنن الکبری: 7/207، وسنده صحیح) جعفر بن محمد رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ ان سے متعہ کے بارے میں سوال ہوا، تو انہوں نے فرمایا: یہ تو کھلا زنا ہے۔
(فتح الباري لابن حجر: 9/78)
❀ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463ھ) لکھتے ہیں:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین اور بعد والے علمائے کرام اور فقہائے مسلمین تمام کے تمام حرمت متعہ پر متفق ہیں۔ جن میں اہل مدینہ سے امام مالک رحمہ اللہ اور اہل کوفہ سے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ، متفقہ طور پر اہل حدیث اور اہل فقہ میں سے امام شافعی رحمہ اللہ، اہل شام میں سے امام اوزاعی رحمہ اللہ اور اہل مصر میں سے امام لیث بن سعد رحمہ اللہ اور دیگر تمام محدثین کرام رحمہم اللہ شامل ہیں۔
(التمهيد لما في المؤطأ من المعاني والأسانيد: 10/121)
❀ حافظ بغوی رحمہ اللہ (516ھ) فرماتے ہیں:
اتفق العلماء على تحريم نكاح المتعة وهو كالاجماع بين المسلمين
اہل علم کا متعہ کی حرمت پر اتفاق ہے۔ یہ مسلمانوں کا اجماع ہی ہے۔
(شرح السنة: 9/100)
❀ علامہ ابن العربی رحمہ اللہ (543ھ) لکھتے ہیں:
ابتدا میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نکاح متعہ کے جواز کے قائل تھے، بعد میں ان کا رجوع کرنا ثابت ہے، لہذا متعہ کی حرمت پر اجماع منعقد ہو چکا ہے۔
(القبس شرح مؤطأ الإمام مالك، ص 714)
❀ قاضی عیاض رحمہ اللہ (544ھ) لکھتے ہیں:
متعہ کی حرمت پر سوائے رافضیوں کے تمام علما کا اجماع ہو گیا۔
(شرح مسلم للنووي: 9/181)
❀ علامہ علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی رحمہ اللہ (593ھ) لکھتے ہیں:
ابن عباس رضي الله عنهما صح رجوعه الى قولهم فتقرر الاجماع
ابن عباس رضی اللہ عنہما کا رجوع صحیح ثابت ہے، یوں اجماع منعقد ہو گیا۔
(الهداية: 1/190، فتح القدير لابن همام: 3/247، البحر الرائق لابن نجيم: 3/114)
❀ مفسر قرطبی رحمہ اللہ (671ھ) فرماتے ہیں:
انعقد الاجماع على تحريرها
متعہ کی حرمت پر اجماع ہو گیا ہے۔
(تفسير القرطبي: 5/133)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بتایا:
ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن المتعة وعن لحوم الحمر الاهلية زمن خيبر
غزوہ خیبر کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح متعہ اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا تھا۔
(صحيح البخاري: 5115، صحیح مسلم: 1407/30)
دوسری روایت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں:
نهى عن متعة النساء يوم خيبر وعن اكل لحوم الحمر الانسية
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن عورتوں سے متعہ کرنے اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔
(صحيح البخاري: 4216، صحیح مسلم: 1407/30)
❀ صحیح مسلم میں(1407/31 )ہے:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کو عورتوں سے متعہ کرنے کے بارے میں نرم بات کرتے سنا، تو فرمایا: ابن عباس! اس فتوے سے رک جائیے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن نکاح متعہ اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے