سوال:
نکاح حلالہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جواب:
اسلام دین فطرت اور مکمل نظام حیات ہے۔ اس نے جہاں انسان کی تمام شعبہ ہائے زندگی میں مکمل رہنمائی کی، وہاں شعبہ معاشرت میں بھی تحفظ عفت و عصمت کے لیے قانون نکاح کی پذیرائی کی۔ اس شعار نے انسانیت کو درندگی کی دلدل سے نکال کر بندگی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا۔ لیکن افسوس کہ بعض نے حلالہ جیسی لعنت کے ذریعے محافظان عزت کو پھر راہزن کر دیا۔ نکاح حلالہ باطل اور حرام ہے۔ احادیث صحیحہ اور اجماع اس پر دلیل ہیں۔
❀ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحل والمحلل له
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا، دونوں مردوں پر لعنت فرمائی ہے۔
(مسند الإمام أحمد: 323/2، مسند البزار (کشف الأستار: 1442)، مسند إسحاق، مسند أبی یعلى، نصب الرایة: 240/3، السنن الكبرى للبیهقی: 208/7، المتفق للخطیب: 1705، وسندہ حسن)
❀ امام ابن الجارود رحمہ اللہ (684ھ) نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
❀ حافظ زیلعی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الحديث صحيح
یہ حدیث صحیح ہے۔
(نصب الرایة: 240/3)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (اعلام الموقعین لابن القیم: 3/48)، علامہ ابن عبد الهادی رحمہ اللہ (تنقیح التحقیق: 363/4) اور حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ (التوضیح: 224/25) نے اس کی سند کو جید کہا ہے۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔
(إعلام المؤقعین: 119/5)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
استدلوا بهذا الحديث على بطلان النكاح إذا شرط الزوج أنه إذا نكحها بانت منه أو شرط أنه يطلقها أو نحو ذلك وحملوا الحديث على ذلك ولا شك أن إطلاقه يشمل هذه الصورة وغيرها
اہل علم نے اس حدیث سے اس نکاح کے بطلان پر استدلال کیا ہے، جس میں شوہر یہ شرط لگائے کہ جب وہ (فلاں) عورت سے نکاح کرے گا، وہ جدا ہو جائے گی، یا یہ شرط لگائے کہ وہ اسے طلاق دے دے گا، وغیرہ۔ اہل علم نے اس حدیث کو اسی صورت پر محمول کیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا عموم اس اور اس جیسی تمام صورتوں کو شامل ہے۔
(التلخیص الحبیر: 373/3)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
اتفق على تحريم ذلك أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، والتابعون لهم بإحسان
نکاح حلالہ کی حرمت پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تابعین عظام کا اتفاق ہے۔
(الفتاوى الكبرى: 95/3)