اس مضمون میں ہم نکاح کے فطری و شرعی مقاصد، میاں بیوی کے باہمی حقوق و فرائض، ازدواجی زندگی کی اصل روح اور ہمارے معاشرے میں طلاق کے بڑھتے ہوئے اسباب کے ساتھ ان کے شرعی حل پیش کریں گے۔ پہلے حصے میں نکاح کی اہمیت، نیک بیوی کی قدر، نکاح کو ’’میثاقِ غلیظ‘‘ ماننے کا تقاضا، اور باہمی حقوق کا خلاصہ آئے گا؛ پھر طلاق کے اسباب میں سے اوّلین اسباب—گناہ و معاصی، بدگمانیاں اور غیرت میں افراط و تفریط—کا علاج قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان ہوگا۔ اگلے حصوں میں باقی اسباب، مرحلہ وار اصلاحی اقدامات اور طلاق کے آداب و احکام آئیں گے۔
نکاح: فطرت کی پکار اور شریعت کا راستہ
اسلام نے مرد و عورت کی فطری حاجات کی تکمیل کے لیے آزاد تعلق نہیں، بلکہ باقاعدہ شرعی طریقہ مقرر کیا جسے “نکاح” کہا جاتا ہے۔ نکاح سے مقدس رشتہ قائم ہوتا ہے، پاکیزہ محبت جڑ پکڑتی ہے، اور زندگی کی گاڑی باہمی خیرخواہی سے چلتی ہے؛ مرد کمانے اور نفقہ کی ذمہ داری اٹھاتا ہے، بیوی گھر کا نظام، شوہر کی راحت اور اولاد کی تربیت سنبھالتی ہے۔
سکون و محبت: آیتِ ربانی
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً ﴾ [الروم : ۲۱]
ترجمہ: “اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔”
یہی وہ خدائی سکون ہے جس کی نظیر نہیں؛ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حدیث: ( لَمْ یُرَ لِلْمُتَحَابَّیْنِ مِثْلُ النِّکَاحِ ) [صحیح الجامع للألبانی : ۵۲۰۰ ، السلسلۃ الصحیحۃ : ۶۲۴]
ترجمہ: “محبت کرنے والوں کے لیے نکاح جیسی (محبت بڑھانے والی) چیز نہیں دیکھی گئی۔”
نکاح: نصف دین کی تکمیل
حدیث: ( إِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ ، فَلْیَتَّقِ اللّٰہَ فِیْ النِّصْفِ الْبَاقِیْ )
ترجمہ: “جب بندہ شادی کر لیتا ہے تو آدھا دین مکمل کر لیتا ہے، لہٰذا باقی نصف میں اللہ سے ڈرے۔”
مزید آیا:
حدیث: ( مَنْ رَزَقَہُ اللّٰہُ امْرَأَۃً صَالِحَۃً فَقَدْ أَعَانَہُ عَلٰی شَطْرِ دِیْنِہٖ ، فَلْیَتَّقِ اللّٰہَ فِیْ الشَّطْرِ الْبَاقِی) [التوبۃ : ۷۳]
ترجمہ: “جسے اللہ نیک بیوی عطا کر دے، گویا اس کے دین کے آدھے حصے پر مدد فرما دی؛ باقی آدھے میں اللہ سے ڈرے۔”
نیک بیوی: سعادت و خزانہ
حدیث: ( أَرْبَعٌ مِنَ السَّعَادَۃِ : اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ ، وَالْمَسْکَنُ الْوَاسِعُ ، وَالْجَارُ الصَّالِحُ ، وَالْمَرْکَبُ الْہَنِیْئُ ) [صحیح الترغیب والترہیب للألبانی :۱۹۱۴]
ترجمہ: “چار چیزیں سعادت سے ہیں: نیک بیوی، کشادہ گھر، نیک پڑوسی، اور آرام دہ سواری۔”
حدیث: ( أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ مَا یُکْنَزُ ؟ اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ ، إِذَا نَظَرَ إِلَیْہَا سَرَّتْہُ ، وَإِذَا غَابَ عَنْہَا حَفِظَتْہُ ، وَإِذَا أَمَرَہَا أَطَاعَتْہُ ) [ابو داؤد: ۱۶۶۴]
ترجمہ: “کیا میں بہترین خزانے کی خبر نہ دوں؟ نیک بیوی: شوہر دیکھے تو خوش کرے، غیرحاضری میں اس کی (عزت و مال) کی حفاظت کرے، اور حکم دے تو اطاعت کرے۔”
نکاح: ایک پختہ عہد
نکاح میں دونوں طرف ذمہ داریاں طے ہوتی ہیں: نان و نفقہ، حقوق کی پاسداری، اطاعت و گھریلو سکون اور اولاد کی پرورش۔
آیت: ﴿وَّ اَخَذْنَ مِنْکُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا﴾ [النساء: 12 ]
ترجمہ: “وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں۔”
باہمی حقوق اور درجۂ قوامیت
آیت: ﴿ وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ ﴾ [البقرۃ : ۲۲۸ ]
ترجمہ: “عورتوں کے (شوہر پر) معروف کے مطابق حقوق ہیں جیسے شوہروں کے ان پر ہیں، اور مردوں کو ان پر ایک درجہ (قوامیت) حاصل ہے۔”
حدیث: ( أَلاَ إِنَّ لَکُمْ عَلٰی نِسَائِکُمْ حَقًّا ، وَلِنِسَائِکُمْ عَلَیْکُمْ حَقًّا ) [صحیح الترغیب والترہیب للألبانی : ۱۹۳۰]
ترجمہ: “خبردار! تمہارے بیویوں پر تمہارے حقوق ہیں اور تم پر تمہاری بیویوں کے حقوق ہیں۔”
طلاق کے بڑھتے واقعات: اسباب اور شرعی حل
ازدواجی رشتہ حقوق کی ادائیگی سے قائم رہتا ہے؛ ورنہ معمولی باتیں طلاق تک لے جاتی ہیں۔ ذیل میں نمایاں اسباب اور ان کے حل پیش ہیں:
① گناہ اور برائیاں
آیت: ﴿ وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْکُمْ وَیَعْفُو عَن کَثِیْرٍ ﴾ [الشوری : ۳۰]
ترجمہ: “تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے تمہارے اپنے اعمال کی وجہ سے پہنچتی ہے، اور وہ بہت سے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔”
حل: سچی توبہ و استغفار، معاصی سے اجتناب۔
آیت: ﴿وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا…﴾ [ہود : ۳]
ترجمہ: “اپنے رب سے مغفرت مانگو پھر توبہ کرو، وہ مقررہ مدت تک بہترین زندگی دے گا…”
② شکوک و شبہات اور بدگمانیاں
بلا دلیل بدگمانی اعتماد توڑتی اور گھر اجاڑ دیتی ہے۔
آیت: ﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ… وَّلاَ تَجَسَّسُوا﴾ [الحجرات :۱۲]
ترجمہ: “اے ایمان والو! بہت سے گمان سے بچو… اور تجسس نہ کرو۔”
حدیث: ( إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ… وَلاَ تَحَسَّسُوْا وَلاَ تَجَسَّسُوْا ) [البخاری : ۶۰۶۶ ، مسلم : ۲۵۶۳]
ترجمہ: “بدگمانی سے بچو، یہ سب سے جھوٹی بات ہے… نہ ٹوہ میں لگو نہ تجسس کرو۔”
قضیۂ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کی مثل میں نبی ﷺ نے شبہ کا دروازہ بند کیا۔
حدیث: [البخاری : ۵۳۰۵ ، مسلم : ۱۵۰۰] (متن جیسا مذکور)
آیتِ تحقیق خبر: ﴿اِِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْٓا…﴾ [الحجرات : ۶]
ترجمہ: “اگر کوئی فاسق خبر لائے تو تحقیق کر لو…”
③ غیرت میں افراط و تفریط
حدیث: ( اَلْمُؤْمِنُ یَغَارُ وَاللّٰہُ أَشَدُّ غَیْرًا ) [مسلم: ۲۷۶۱]
ترجمہ: “مومن غیرت مند ہوتا ہے اور اللہ اس سے زیادہ غیرت والا ہے۔”
حل: غیرت نہ ہو تو بے پردگی و اختلاط سے روکنا، اور حد سے بڑھ جائے تو اعتدال؛ ورنہ شک، تجسس اور طلاق تک نوبت آتی ہے۔
④ مردانگی کا بے جا اظہار اور بدسلوکی
بعض مرد آیتِ قوامیت اور “نقصِ عقل” والی روایات کو غلط معنی پہنا کر حاکمانہ لہجہ اختیار کر لیتے ہیں؛ بیوی کی رائے کو حقیر جانتے، تحقیر آمیز گفتگو کرتے اور حتیٰ کہ بچوں کے سامنے بھی اہانت سے نہیں بچتے۔ یہ رویہ بالآخر ازدواجی تعلق کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور طلاق کی نوبت لا سکتا ہے۔
حل:
❀ بیوی کے ساتھ حسنِ معاشرت لازم ہے:
آیت: ﴿ وَ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ [النساء : ۱۹ ]
ترجمہ: “اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔”
❀ اخلاق و حسنِ سلوک ہی کامل ایمان کی علامت ہے:
حدیث: ( أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ إِیْمَانًا أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا ، وَخِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِہِمْ ) [الترمذی ۔ ۱۱۶۲ : حسن صحیح ، وانظر: السلسلۃ الصحیحۃ : ۲۸۴]
ترجمہ: “کامل ایمان والا وہ ہے جو بہترین اخلاق والا ہو، اور تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہترین ہو۔”
❀ باہمی حقوق متوازن ہیں:
آیت: ﴿ وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ ﴾ [البقرۃ : ۲۲۸ ]
ترجمہ: “عورتوں کے شوہروں پر معروف کے مطابق حقوق ہیں جیسے شوہروں کے ان پر ہیں، اور مردوں کو ان پر ایک درجہ (قوامیت) حاصل ہے۔”
❀ ظلم سے روک:
حدیثِ حجۃ الوداع: ( فَاتَّقُوْا اللّٰہَ فِیْ النِّسَائِ،فَإِنَّکُمْ أَخَذْتُمُوْہُنَّ بِأَمَانِ اللّٰہِ ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَہُنَّ بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ ) [مسلم ۔ ۱۲۱۸ ]
ترجمہ: “عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو؛ تم نے انہیں اللہ کی امان کے ساتھ لیا اور اللہ کے کلمے کے ساتھ ان کی عصمت حلال کی۔”
⑤ خاوند کی نافرمانی
بعض خواتین شوہر کے حکم کو خاطر میں نہیں لاتیں، من مانی کرتیں اور ناشکری کرتی ہیں؛ یہ رویہ گھر کو اجاڑ دیتا ہے۔
حل:
❀ قوامیت کو تسلیم کر کے اطاعت اختیار کی جائے:
آیت: ﴿ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ ﴾ [البقرۃ : ۲۲۸ ]
"اور مردوں کو ان (عورتوں) پر ایک درجہ فوقیت حاصل ہے۔”
❀ افضل بیوی کی تعریف:
حدیث: ( اَلَّتِیْ تَسُرُّہُ إِذَا نَظَرَ ، وَتُطِیْٖعُہُ إِذَا أَمَرَ ، وَلاَ تُخَالِفُہُ فِیْ نَفْسِہَا وَمَالِہَا بِمَا یَکْرَہُ) [النسائی… : ۳۲۳۱ ، صححہ الألبانی]
ترجمہ: “وہ (بیوی) جو شوہر کو دیکھے تو خوش کر دے، حکم دے تو اطاعت کرے، اور اپنے نفس و مال میں شوہر کی ناپسند کے خلاف نہ کرے۔”
❀ نافرمانی کی قباحت:
حدیث: ( اِثْنَانِ لاَ تُجَاوِزُ صَلاَتُہُمَا رُؤُوْسَہُمَا … وَامْرَأَۃٌ عَصَتْ زَوْجَہَا حَتّٰی تَرْجِعَ) [صحیح الترغیب والترہیب: ۱۹۴۸]
ترجمہ: “دو افراد کی نماز اوپر نہیں جاتی… اور وہ عورت جو شوہر کی نافرمان ہو یہاں تک کہ رجوع کرے۔”
❀ ناشکری کی وعید:
حدیث: «لَا يَنْظُرُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَى امْرَأَةٍ لَا تَشْكُرُ لِزَوْجِهَا وَهِيَ لَا تَسْتَغْنِي عَنْهُ»[صحیح الترغیب والترہیب: ۱۹۴۴ ، الصحیحۃ : ۲۸۹]
ترجمہ: "اللہ تعالیٰ اس عورت کی طرف نہیں دیکھتا جو اپنے شوہر کی شُکریہ نہ کرے، اور وہ اس سے بے نیاز ہو جائے۔”
⑥ بے انتہاء ملامت اور شدید تنقید
ہمہ وقت عیب جوئی، ڈانٹ ڈپٹ اور منفی سوچ محبت کو کھا جاتی ہے؛ مرد یا عورت کا یہ مستقل طرزِ عمل گھر کو فساد کی طرف دھکیلتا ہے۔
حل:
❀ خوبیوں کو دیکھنا، غلطیوں کو معاف کرنا، مثبت سوچ اپنانا۔
آیت: ﴿ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا ﴾ [النساء : ۱۹ ]
ترجمہ: “اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ممکن ہے تم ایک چیز کو ناگوار سمجھو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔”
حدیث: ( لاَ یَفْرَکْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَۃً ، إِنْ کَرِہَ مِنْہَا خُلُقًا رَضِیَ مِنْہَا آخَرَ) [مسلم : ۱۴۶۹ ]
ترجمہ: “مومن (اپنی) مومنہ بیوی سے بغض نہ رکھے؛ اگر ایک خصلت ناگوار ہو تو دوسری پسند آئے گی۔”
⑦ خرچ کرنے میں بے اعتدالی
کنجوسی ہو یا اسراف—دونوں گھر کی شیرازہ بندی توڑ دیتے ہیں؛ کنجوسی سے ضروریات دب جاتیں، اور اسراف سے برکت اٹھ جاتی ہے۔
حل:
❀ میانہ روی:
آیت: ﴿ وَالَّذِیْنَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْْنَ ذَلِکَ قَوَامًا ﴾ [الفرقان: ۶۷]
ترجمہ: “جب خرچ کریں تو نہ اسراف کرتے ہیں نہ تنگی، بلکہ درمیان کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔”
❀ کفالت میں کوتاہی—گناہِ کبیرہ:
حدیث: ( کَفَی بِالْمَرْئِ إِثْمًا أَن یُّضَیِّعَ مَن یَّقُوْتُ ) [ابو داؤد : ۱۶۹۴۔ قال الألبانی : حسن]
ترجمہ: “آدمی کے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ جن کی کفالت اس کے ذمے ہے انہیں ضائع کر دے۔”
⑧ فطری ضرورت کا پورا نہ ہونا
مرد و عورت دونوں کی ایک فطری اور شرعی ضرورت ہے، اور اگر یہ ضرورت پوری نہ ہو تو ازدواجی تعلق میں سردمہری اور ناچاقی جنم لیتی ہے، جو بالآخر طلاق تک جا پہنچتی ہے۔
اسلام نے اس تعلق کو ’’عبادت‘‘ اور ’’حقِ زوجیت‘‘ قرار دیا ہے، جس کا پورا کرنا دونوں پر لازم ہے۔
حل:
زوجین کو ایک دوسرے کی فطری ضرورت کو سمجھنا، احترام کرنا اور پورا کرنے کا حق ادا کرنا چاہئے۔
حدیث:
(إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ إِلٰی فِرَاشِہٖ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَیْہَا ، لَعَنَتْہَا الْمَلاَئِکَۃُ حَتّٰی تُصْبِحَ)
[البخاری: ۳۲۳۷ ، مسلم: ۱۷۳۶]
ترجمہ: “جب خاوند بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے، تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔”
حدیث:
( إِذَا دَعَا الرَّجُلُ زَوْجَتَہُ لِحَاجَتِہٖ ، فَلْتَأْتِہٖ وَإِنْ کَانَتْ عَلَی التَّنُّوْرِ )
[الترمذی، النسائی، صحیح الترغیب: ۱۹۴۶]
ترجمہ: “جب شوہر اپنی بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو وہ ضرور آئے، اگرچہ وہ تنور پر کیوں نہ ہو۔”
حدیث:
( إِنَّ لِرَبِّکَ عَلَیْکَ حَقًّا ، وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا ، وَلِأَہْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا ، فَأَعْطِ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہُ )
[البخاری: ۱۹۶۸]
ترجمہ: “تمہارے رب کا تم پر حق ہے، تمہاری جان کا تم پر حق ہے، اور تمہارے گھر والوں کا بھی تم پر حق ہے، لہٰذا ہر صاحبِ حق کو اس کا حق دو۔”
⑨ عورت کی زبان درازی اور بدکلامی
کچھ خواتین بدزبان ہوتی ہیں، شوہر سے سخت لہجے میں بات کرتی ہیں، اس کی عزت نہیں کرتیں اور غصے میں طلاق کا مطالبہ تک کر بیٹھتی ہیں۔ بعض تو چیلنج کرتی ہیں: “اگر طلاق دینی ہے تو دے دو!” — یہ طرزِ عمل گھروں کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔
حل:
❀ عورت کو زبان کی حفاظت کرنی چاہیے، خصوصاً شوہر کے احترام میں۔
❀ نبی ﷺ نے بغیر عذر طلاق کا مطالبہ کرنے والی عورت کو سخت وعید سنائی:
حدیث:
( أَیُّمَا امْرَأَۃٍ سَأَلَتْ زَوْجَہَا الطَّلاَقَ مِنْ غَیْرِ مَا بَأْسٍ ، فَحَرَامٌ عَلَیْہَا رَائِحَۃُ الْجَنَّۃِ )
[احمد، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، صحیح الجامع: ۲۷۰۶]
ترجمہ: “جو عورت بغیر کسی معقول وجہ کے طلاق کا مطالبہ کرے، اس پر جنت کی خوشبو تک حرام کر دی جاتی ہے۔”
⑩ ناچاقی ختم کرنے کے شرعی مراحل کو چھوڑ دینا
اکثر لوگ زوجین کے مابین اختلافات پیدا ہونے پر فوراً “طلاق” کا لفظ استعمال کرتے ہیں، حالانکہ شریعت نے پہلے اصلاحی مراحل بتائے ہیں۔ طلاق آخری علاج ہے، پہلا نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان:
﴿وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَ اھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا ﴾ [النساء: ۳۴]
ترجمہ: “جن بیویوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انہیں نصیحت کرو، پھر ان کے بستر الگ کرو، پھر (ہلکی) سزا دو۔ اور اگر وہ اطاعت کر لیں تو ان پر زیادتی کے بہانے مت تلاش کرو۔”
اصلاح کے تین مراحل:
① نصیحت خیرخواہی کے انداز میں
② بستر الگ کرنا
③ بطورِ آخری تنبیہ ہلکی سزا — وہ بھی غیر مضر
حدیث:
( لَا یَجْلِدْ أَحَدُکُمُ امْرَأَتَہُ جِلْدَ الْعَبْدِ ثُمَّ یُجَامِعُہَا فِیْ آخِرِ الْیَوْمِ )
[البخاری: ۵۲۰۴ ، مسلم: ۲۸۵۵]
ترجمہ: “تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح نہ مارے، پھر دن کے آخر میں اس سے ہم بستری کرے۔”
اگر اس کے بعد بھی صلح نہ ہو تو دونوں طرف سے ثالث مقرر کیے جائیں:
آیت:
﴿ وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا اِنْ یُّرِیْدَآاِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَھُمَا﴾ [النساء : ۳۵]
ترجمہ: “اگر تمہیں ان (میاں بیوی) میں پھوٹ کا اندیشہ ہو تو ایک ثالث شوہر کے خاندان سے اور ایک بیوی کے خاندان سے مقرر کرو؛ اگر دونوں صلح چاہیں گے تو اللہ میل کر دے گا۔”
نتیجہ:
یہ وہ دس بڑے اسباب ہیں جو ازدواجی تعلقات میں بگاڑ اور طلاق کا باعث بنتے ہیں۔ اگر میاں بیوی دونوں تقویٰ، برداشت، حسنِ اخلاق اور شرعی اصولوں کو اپنائیں تو گھر سکون و محبت کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
حاصلِ کلام:
❀ نکاح ایک مقدس رشتہ اور مضبوط عہد ہے۔
❀ نیک بیوی شوہر کے لیے دنیا کا سب سے قیمتی خزانہ ہے۔
❀ ازدواجی خوشحالی کا راز باہمی حقوق، محبت، ایثار اور خوفِ خدا میں ہے۔
❀ طلاق کے اسباب میں گناہ، بدگمانیاں، بے اعتدالی، زبان درازی اور نافرمانی نمایاں ہیں۔
❀ ان سب کا علاج شریعت نے توبہ، صبر، خیرخواہی، اور اصلاحی تدابیر کی شکل میں بیان کیا ہے۔
نتیجہ:
اسلام نے طلاق کو آخری حل قرار دیا ہے، پہلا نہیں۔ اگر قرآن و سنت کی روشنی میں ازدواجی مسائل حل کیے جائیں تو نہ صرف گھر بلکہ معاشرہ بھی امن و محبت کا نمونہ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ و صبر کے ساتھ زندگی گزارنے، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے، اور خوشگوار ازدواجی زندگی نصیب فرمائے۔ آمین۔