شریعتِ محمدی: کامل ضابطۂ حیات
اسلامی شریعت، جو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے ذریعے عطا کی گئی، ایک مکمل اور جامع ضابطۂ حیات ہے۔ اس میں قیامت تک کسی بھی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ماضی کے مختلف ادوار اور حالات میں جو قوانین بدلتے رہتے تھے، اسلام نے انہیں ہمیشہ کے لیے متعین کر دیا ہے۔ وحی کے نزول کے وقت سے لے کر قیامت تک کے لیے ایک مضبوط اور مستقل دستور زندگی عطا کیا گیا ہے۔
معاشرتی اصلاح اور قوانین کا تعین
شریعت کے کمال کا یہ تقاضا تھا کہ نہ صرف افراد بلکہ پورے معاشرے کی بھلائی کے لیے قوانین وضع کیے جائیں۔ اسلام نے بتدریج معاشرتی بگاڑ کا سبب بننے والے کاموں کو حرام قرار دیا۔ اس کا بہترین نمونہ شراب کی حرمت ہے۔ پہلے مسلمانوں کو نماز کے اوقات میں شراب نوشی سے روکا گیا، پھر اس کے نقصانات کی نشاندہی کی گئی، اور آخرکار اسے مکمل طور پر حرام کر دیا گیا۔
نکاحِ متعہ کی حرمت
اسی طرح نکاحِ متعہ، جو ابتدائی دور میں جائز تھا، کو بھی اصلاح معاشرہ کی خاطر ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا گیا۔ جس طرح شراب کی حرمت سے پہلے صحابہ کرامؓ کا شراب پینا قابلِ جواز تھا لیکن بعد میں ممنوع قرار دیا گیا، اسی طرح نکاحِ متعہ بھی تدریجاً حرام ہوا۔ اب کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس دور کے واقعات کو بنیاد بنا کر نکاحِ متعہ کے جواز پر اصرار کرے۔
نکاحِ متعہ کے مضر اثرات
نکاحِ متعہ کے فرد اور معاشرے پر کئی منفی اثرات تھے، اسی لیے اسے ممنوع قرار دیا گیا۔ اس کے مقابلے میں شرعی نکاح کو رواج دیا گیا جو کہ فرد اور معاشرے دونوں کے لیے بہتر ہے۔ شرعی نکاح کا مقصد عفت و عصمت کا تحفظ ہے جبکہ نکاحِ متعہ میں یہ ممکن نہیں ہوتا۔ اس میں دوام اور استحکام نہیں ہوتا، محبت اور سکون کا فقدان ہوتا ہے، اور ایک سے زائد شوہروں کا تصور بھی اس میں پایا جاتا ہے۔
معاشرتی بے راہ روی اور نکاحِ متعہ
نکاحِ متعہ کے ذریعے معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوتا ہے اور انسانیت کی اعلیٰ قدریں پامال ہوتی ہیں۔ اس میں عورت کے لیے کئی مردوں سے تعلقات رکھنے کی گنجائش ہوتی ہے، جس سے خاندان کا ادارہ تباہ ہوتا ہے۔ ایسے بچے، جن کے والد کا تعین نہ ہو سکے، معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
"جائز نکاح وہی ہے جو مسلمانوں کے ہاں معروف ہے، اور یہ نکاح زوجین کے درمیان محبت و رحمت کا سبب بنتا ہے۔”
(مجموع الفتاوٰی: 32/92)
شیعہ مذہب اور نکاحِ متعہ
نکاحِ متعہ کی قباحتوں کے باوجود، یہ شیعہ مذہب کا ایک اہم جزو سمجھا جاتا ہے۔ شیعہ علماء کے نزدیک نکاحِ متعہ امامی مذہب کی ایک لازمی ضرورت ہے، جو اسے جائز قرار دیتے ہیں۔
حوالہ جات:
شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسیؒ لکھتے ہیں:
"نکاحِ متعہ کرنے والے مرد کے لیے ضروری نہیں کہ وہ عورت سے پوچھے کہ آیا اس کا کوئی شوہر ہے یا نہیں۔”
(النہایہ، ص: 490)
شیعہ فقیہ محمد بن حسن الحر العاملیؒ لکھتے ہیں:
"نکاحِ متعہ کا جائز قرار دینا امامی شیعوں کی مذہبی ضرورت ہے۔”
(وسائل الشیعہ: 245/7)
نکاحِ متعہ اور اجماعِ امت
اسلامی شریعت میں نکاحِ متعہ کے حوالے سے امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ یہ عمل قیامت تک کے لیے حرام قرار دیا جا چکا ہے۔ اس بارے میں اہم علما کی آراء درج ذیل ہیں:
امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ
امام ابو عبید فرماتے ہیں: "آج مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ نکاحِ متعہ کو منسوخ کر کے حرام کر دیا گیا ہے۔ کتاب و سنت نے اسے منسوخ کیا ہے۔ کوئی صحابی اس کے جواز کا قائل نہیں سوائے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے، اور ان سے بھی رجوع کا قول منقول ہے۔”
(الناسخ والمنسوخ، ص: 80)
اجماعِ امت پر مزید شواہد
امام ابو عبید مزید فرماتے ہیں: "اہل عراق، اہل حجاز، اہل شام، اصحاب الحدیث و اصحاب الرائے اور دیگر تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کوئی مجبوری ہو یا نہ ہو، نکاحِ متعہ کی اجازت نہیں ہے، اور یہ حرام ہے۔”
(الناسخ والمنسوخ، ص: 82)
امام بغوی رحمہ اللہ
حافظ ابو محمد حسین بن مسعود بغوی فرماتے ہیں: "نکاحِ متعہ کی حرمت پر علماء کا اتفاق ہے، اور یہ اجماع مسلمانوں کے درمیان قائم ہو چکا ہے۔”
(شرح السنہ، 9/100)
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ
حافظ عبد الرحمن بن علی ابن الجوزی فرماتے ہیں: "نکاحِ متعہ کے منسوخ ہونے پر اجماع ہو چکا ہے۔”
(کشف المشکل، 1/146)
امام قرطبی رحمہ اللہ
مشہور مفسر امام قرطبی فرماتے ہیں: "نکاحِ متعہ کی حرمت پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔”
(تفسیر القرطبی، 5/133)
امام طحاوی رحمہ اللہ
امام ابو جعفر طحاوی فرماتے ہیں: "سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کی موجودگی میں متعہ سے منع فرمایا، اور کسی نے بھی انکار نہیں کیا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام صحابہ اس حکم میں سیدنا عمر کے ہمنوا تھے۔”
(شرح معانی الآثار، 3/26)
نکاحِ متعہ اور قرآن کریم
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "اور وہ لوگ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں یا لونڈیوں کے، ایسے لوگ ملامت نہیں کیے جائیں گے۔ لیکن جو اس کے علاوہ کچھ تلاش کریں، وہ زیادتی کرنے والے ہیں۔”
(المؤمنون: 7-5، المعارج: 31-29)
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: "میرے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ فیصلہ کرے گی۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ}۔”
(الناسخ والمنسوخ، مسند الحارث)
تفسیر اور استدلال
مشہور مفسر علامہ قرطبی نے واضح کیا کہ قرآن مجید سے نکاحِ متعہ کا جواز نہیں نکلتا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے حرام قرار دیا ہے، اور نکاحِ شرعی ہی جائز ہے، جو ولی اور دو گواہوں کی موجودگی میں ہوتا ہے۔
(تفسیر القرطبی، 5/130)
احادیث رسول ﷺ میں نکاحِ متعہ
نکاحِ متعہ پہلی بار غزوہ خیبر میں ممنوع قرار دیا گیا، پھر فتح مکہ کے موقع پر تین دن کی اجازت دی گئی، اور آخرکار قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا۔
نکاحِ متعہ کی حرمت اور احادیث کی روشنی میں اجماع
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے موقع پر نکاحِ متعہ اور گھریلو گدھوں کے گوشت کے استعمال سے واضح طور پر منع فرمایا۔ اس بارے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام کی احادیث قابل اعتماد ذرائع سے مروی ہیں، جن کی صحت پر علماءِ حدیث کا اجماع ہے۔
حدیثِ علی رضی اللہ عنہ: متعہ کی حرمت
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے روایت کیا: "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے موقع پر نکاحِ متعہ اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا تھا۔”
(صحیح بخاری: 5115، صحیح مسلم: 1407/30)
علماء کی رائے
اہل علم کی متفقہ آراء کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے اور نکاحِ متعہ کی حرمت پر مضبوط دلیل ہے۔
امام ابو جعفر احمد بن محمد النحاس فرماتے ہیں: "اس حدیث کی سند کی صحت اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے نقل شدہ متعہ کی تحریم میں کوئی اختلاف نہیں۔”
(الناسخ والمنسوخ، ص: 322)
امام بغوی فرماتے ہیں: "اس حدیث کی صحت پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔”
(شرح السنہ: 99/9)
امام ابن الجوزی فرماتے ہیں: "بلاشبہ، اس حدیث کی صحت پر اہل علم کا اتفاق ہے۔”
(إعلام العالم: 343)
امام عراقی فرماتے ہیں: "اس حدیث کی صحت پر اتفاق ہے۔”
(شرح البقرہ: 66/2)
امام سخاوی فرماتے ہیں: "یہ حدیث متفق علیہ ہے۔”
(فتح المغیث: 350/3)
امام بخاری فرماتے ہیں: "سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ متعہ منسوخ ہو چکا ہے۔”
(صحیح البخاری: 5119)
ایک شبہ کا ازالہ
بعض افراد یومِ خیبر کے حوالے سے شبہ کرتے ہیں کہ متعہ کی حرمت خیبر میں ممکن نہیں تھی، کیونکہ اس وقت یہودی خواتین سے نکاح یا متعہ کا امکان نہیں تھا۔ اس پر امام ابن قیم رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ اس وقت اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح جائز نہیں تھا، لہٰذا متعہ بھی ممکن نہیں تھا۔
حافظ ابن حجر اس کا جواب دیتے ہیں: "حدیث میں یہ تصریح نہیں کہ خیبر میں متعہ کیا گیا، بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن متعہ کی حرمت کا حکم دیا تھا۔”
نکاحِ متعہ کی حرمت: ایک شبہ اور اس کا ازالہ
بعض لوگوں کی طرف سے یہ شبہ اٹھایا جاتا ہے کہ نکاحِ متعہ غزوہ خیبر کے موقع پر حرام نہیں ہوا تھا، اور اس حدیث میں یوم خیبر کے الفاظ راوی کا وہم ہو سکتے ہیں۔ تاہم، یہ کہنا درست نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اہل علم اور محدثین نے واضح دلائل پیش کیے ہیں۔
یوم خیبر کے الفاظ کی تصدیق
یہ بات ثابت ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ کے تمام شاگرد یوم خیبر کے الفاظ بیان کرنے میں متفق ہیں، اس لیے اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بیٹے، سالم رحمہ اللہ، سے روایت ہے کہ: "ایک شخص نے سیدنا عبد اللہ بن عمر سے نکاحِ متعہ کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا کہ یہ حرام ہے۔ اس شخص نے کہا کہ فلاں شخص اس کے جواز کا قائل ہے، تو ابن عمر نے قسم کھا کر کہا: یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن اسے حرام قرار دیا تھا، اور ہم زناکار نہیں تھے۔”
(الموطا ابن وہب: 249، صحیح ابو عوانہ: 29/3، شرح معانی الآثار: 25/3، السنن الکبریٰ للبیہقی: 207/7)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کی سند کو "قوی” یعنی مضبوط قرار دیا ہے۔
(التلخیص الحبیر: 155/3)
شبہ کا علمی جواب
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ غزوہ خیبر کے موقع پر متعہ کی حرمت کا سوال پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ خیبر کی تمام عورتیں یہودی تھیں اور اس وقت اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح جائز نہیں تھا۔ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت سورہ المائدہ کی آیت {اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ} کے نزول کے بعد ملی، جو آخری سورتوں میں سے ہے۔
(زاد المعاد: 460/3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا رد
اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "حدیث میں یہ تصریح نہیں ہے کہ صحابہ کرام نے خیبر کے موقع پر متعہ کیا تھا، بلکہ حدیث کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اس موقع پر متعہ کی حرمت کا حکم نازل ہوا۔”
مضمون کا خلاصہ
اس مضمون میں نکاحِ متعہ کی حرمت کو احادیث نبوی اور اجماع امت کی روشنی میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاحِ متعہ کو ہمیشہ کے لیے حرام قرار دیا۔ مختلف احادیث، بالخصوص سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایات کے ذریعے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نکاحِ متعہ کا جواز اب قیامت تک کے لیے ختم ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں اہل علم کا اجماع ہے اور اس حدیث کی صحت پر کوئی اختلاف نہیں۔ مزید برآں، ایک شبہ کا ازالہ کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ یومِ خیبر کے الفاظ میں کسی قسم کی غلط فہمی نہیں ہے، اور یہ حرمت اسی موقع پر ثابت ہوئی تھی۔