نور سے متعلق 8 دعوے اور ان کا شرعی تجزیہ قرآن و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری، جلد 1، صفحہ 104

حضور ﷺ کی پیدائش نور سے ہونے اور دیگر آٹھ دعووں کی حقیقت قرآن و حدیث کی روشنی میں

مقدمہ

سوال نمبر 35 میں ایک مولوی صاحب کی جانب سے عوامی وعظ میں آٹھ اقوال بیان کیے گئے، جن میں بعض اقوال انتہائی عجیب اور عقیدۂ اسلام سے میل نہیں کھاتے۔ عبدالحلیم سراوہ پٹنہ کے استفسار پر اس کا تفصیلی تحقیقی جواب پیش کیا گیا ہے۔ درج ذیل میں ہر دعوے کا تفصیلی تجزیہ قرآن و سنت کی روشنی میں کیا گیا ہے۔

مولوی صاحب کے آٹھ دعوے:

➊ حضور ﷺ کی پیدائش نور سے ہوئی۔
➋ اگر اللہ تعالیٰ حضور ﷺ کو پیدا نہ کرتا تو آسمان، زمین، جن و انس بھی پیدا نہ ہوتے۔
➌ حضور ﷺ کا لعاب دہن خوشبودار ہوتا تھا۔
➍ حضور ﷺ کا بول و براز خوشبودار ہوتا تھا۔
➎ صحابہ کرام لعاب دہن کو اپنے جسم پر مل لیا کرتے تھے۔
➏ آپ ﷺ لعاب دہن اور بول کو لوگوں سے چھپاتے تھے۔
➐ ایک بار آپ ﷺ نے بول کو چھپا کر چارپائی کے نیچے رکھا، خادمہ نے اسے خوشبو کی بنا پر پی لیا۔
➑ حضور ﷺ کے جسمِ مبارک کا سایہ نہیں ہوتا تھا۔

دعویٰ اول: حضور ﷺ کی پیدائش نور سے ہوئی

پیش کردہ دلائل:

أول ما خلق الله نوري
يا جابر، أول ما خلق الله نور نبيك من نوره
أنا من نور الله من الله والمؤمنون مني

تحقیقی جواب:

◈ پہلی حدیث معلق بلا سند ہے اور محدثین کے نزدیک موضوع ہے۔
◈ دوسری روایت مصنف عبدالرزاق سے بلا سند ہے اور موضوعات میں شمار ہوتی ہے۔
◈ صحیح احادیث کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا:
أول ما خلق الله القلم
(احمد 5/317، ترمذی 4/457، ابوداؤد 5/76)

◈ تیسری اور چوتھی روایات کے متعلق بھی حافظ ابن حجر، ملا علی قاری، ابن تیمیہ، اور السخاوی نے ان کے موضوع اور من گھڑت ہونے پر اتفاق کیا ہے۔

◈ صحیح مسلم کی حدیث:
خلقت الملائكة من نور، وخلق الجان من نار، وخلق آدم مما وصف لكم
(مسلم 4/229)

◈ حضور ﷺ حضرت آدمؑ کی اولاد سے ہیں جن کی تخلیق مٹی سے ہوئی، اس لیے آپ ﷺ کا بشر ہونا یقینی ہے۔

نتیجہ:

یہ عقیدہ کہ حضور ﷺ نور سے پیدا ہوئے عقلاً و نقلاً باطل ہے، اور اہل حدیث کا اس پر ایمان نہیں۔

دعویٰ دوم: اللہ تعالیٰ نے سب کچھ حضور ﷺ کے لیے پیدا کیا

◈ اکثر بدعتی افراد کی زبان پر حدیث لولاك لما خلقت الأفلاك جاری ہے، جو کہ موضوع ہے۔

حوالہ جات:

قال الصغاني: موضوع، كذا في الخلاصة
(تذكرة الموضوعات ص: 86، موضوعات كبير ص: 59)

◈ دیگر روایات میں بھی بیان کیا گیا کہ:
لولاك ما خلقت الجنة… ما خلقت النار… ما خلقت الدنيا
(دیلمی، ابن عساکر)

نتیجہ:

یہ روایتیں بھی موضوع اور ناقابلِ اعتبار ہیں۔

دعویٰ سوم: لعاب دہن خوشبودار تھا

◈ ایسی کوئی صحیح یا ضعیف حدیث موجود نہیں جس سے لعاب دہن کے خوشبودار ہونے کا ثبوت ملے۔
◈ اگر کوئی صحیح سند سے روایت ملے تو تسلیم کرنے میں عذر نہیں ہوگا۔

دعویٰ چہارم: بول و براز خوشبودار تھا

◈ یہ دعویٰ جھوٹ، غلط اور بے بنیاد ہے۔ کسی روایت سے یہ ثابت نہیں۔

دعویٰ پنجم: صحابہ کرام لعاب دہن جسم پر ملتے تھے

◈ یہ درست ہے کہ صحابہ کرام شدید محبت کی بنا پر تبرکاً لعاب دہن، تھوک اور وضو کا پانی اپنے جسموں پر لگاتے تھے۔

حوالہ:

◈ حافظ ابن حجر:
وفيه طهارة النخامة… والتبرك بفضلات الصالحين الطاهرة
(فتح الباری)
◈ تاہم، اس سے خوشبو ثابت نہیں ہوتی، صرف تبرک کی نیت مراد تھی۔

دعویٰ ششم: لعاب دہن اور بول کو چھپا کر پھینکنا

◈ لعاب دہن کے متعلق چھپانے کی کوئی دلیل نہیں۔
◈ بول وبراز کو چھپانے کا مقصد حیاء، ستر اور پردہ تھا، نہ کہ تبرک سے بچانا۔

دعویٰ ہفتم: بول کو خادمہ نے خوشبو کی وجہ سے پی لیا

اصل واقعہ:

◈ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا نے رات میں غلطی سے پیالے کو پانی سمجھ کر پیشاب پی لیا۔
◈ یہ واقعہ بیان ہوا:
فغلطت فشربتها… فقال: إنك لا تشتكي بطنك بعد يومك هذا
(الاصابة 4/433)

◈ اس واقعہ سے بول کی خوشبو یا قصداً پینا ثابت نہیں ہوتا۔
◈ بعض فقہاء کے نزدیک نبی ﷺ کے فضلات طاہر تھے، لیکن صحیح سند سے چاروں ائمہ سے اس کی تصریح ثابت نہیں۔

دعویٰ ہشتم: جسمِ مبارک کا سایہ نہیں ہوتا تھا

◈ یہ دعویٰ بھی پہلے دعوے پر موقوف ہے کہ آپ ﷺ نور سے پیدا ہوئے۔
◈ جب پیدائش نور سے ہونا ہی ثابت نہیں تو سایہ نہ ہونا باطل اور لغو دعویٰ ہے۔

اضافی نکات:

◈ بعض روایات سے پسینے کے خوشبودار ہونے کا ذکر ہے، لیکن وہ روایتیں بھی:

حديث… فيشم أهل المدينة… وسموه بيت المطيبين
(الفوائد المجموعة ص: 205)
وفيه حسن الكلبي وهو متروك
(مجمع الزوائد 8/283)

◈ یعنی یہ روایات قریبِ موضوع اور ناقابلِ اعتماد ہیں۔

نتیجہ

مولوی صاحب کے تمام آٹھ دعوے غیر ثابت شدہ، موضوع روایات، اور عقیدۂ اہل حدیث کے خلاف ہیں۔ بعض اقوال تو عقلاً و شرعاً باطل اور جاہلانہ گمان پر مبنی ہیں۔ ایسے عقائد بدعتیوں کے اقوال میں شمار ہوتے ہیں، اور ان کو اہل حدیث کہنا بھی خلافِ حقیقت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ:

قرآن اور صحیح احادیث حضور ﷺ کی بے شمار فضیلتوں سے بھرے ہوئے ہیں، ہمیں ان کے بیان میں جھوٹ، مبالغہ اور موضوعات کی ضرورت نہیں۔

ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے