سوال
اگر زید اپنی ساری جائیداد اپنے نواسے کے نام ہبہ کر دے تو کیا یہ جائز ہوگا؟ کیا وصیت اور ہبہ میں کوئی فرق ہے؟ اگر نواسے کے سوا زید کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہو تو کیا ایسی صورت میں ہبہ جائز ہو سکتی ہے، جبکہ نرینہ اولاد کے علاوہ دیگر اولاد موجود ہو؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پچھلے سوال کے جواب میں احتیاط برتی گئی تھی، کیونکہ اس وقت وارثوں کی مکمل وضاحت موجود نہیں تھی۔ لیکن اس نئے سوال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زید کے ہاں نرینہ اولاد نہیں، صرف نواسہ موجود ہے۔ اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ زید کے ہاں دیگر (غیر نرینہ) اولاد موجود ہے۔
ایسی حالت میں اگر زید اپنی پوری جائیداد صرف نواسے کو ہبہ کر دیتا ہے تو یہ دراصل دوسرے وارثوں کو ان کے شرعی حقوق سے محروم کرنے کے مترادف ہوگا، اور شرعاً اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
- وصیت اور ہبہ میں فرق ضرور موجود ہے:
- وصیت مرنے کے بعد نافذ ہوتی ہے۔
- ہبہ زندگی میں مالکیت منتقل کرنے کا نام ہے۔
لیکن اس فرق کو بنیاد بنا کر وارثوں کو ان کے حصے سے محروم کرنا شرعاً درست نہیں۔ ہبہ کو اس نیت سے استعمال کرنا کہ دوسرے وارث حق سے محروم ہو جائیں، جائز نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب