ننگے سر نماز پڑھنے کا حکم
سوال:
سیدنا محمد ﷺ نے حج اور عمرہ کے علاوہ کبھی ننگے سر نماز پڑھی ہے یا نہیں؟
(سوال از: عبدالواحد، سندھ)
الجواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میرے علم میں ایسی کوئی حدیث موجود نہیں ہے جس میں واضح طور پر یہ ذکر ہو کہ نبی ﷺ نے حج یا عام حالات میں کبھی ننگے سر نماز ادا کی ہو۔
والله أعلم
حج اور عمرہ کے دوران ننگے سر نماز پڑھنے کا استنباط
حالتِ احرام میں سر ڈھانپنا ممنوع ہے، اس لیے عمومی دلائل سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے حج و عمرہ کے دوران ننگے سر نماز ادا کی ہوگی۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی یہ تاثر ملتا ہے کہ آپ ﷺ نے ایک کپڑے میں "التحاف” کرتے ہوئے نماز پڑھی، جس میں سر ننگا رہتا ہے اور صرف کندھے اور باقی جسم ٹخنوں سے اوپر تک ڈھکا ہوتا ہے۔
ننگے سر نماز پڑھنے کے جواز پر دلائل
مردوں کے لیے ننگے سر نماز پڑھنے کے جواز پر متعدد دلائل موجود ہیں:
➊ عدمِ نص قطعی:
کتاب و سنت میں کہیں بھی ایسی صحیح نص موجود نہیں ہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ مردوں کی نماز ننگے سر نہیں ہوتی۔
➋ عورت کی نماز اور دوپٹہ:
ایک صحیح حدیث میں آیا ہے:
"لا تُقبلُ صلاةُ الحائضِ إلا بخِمارٍ”
(سنن ابی داؤد: 641)
"اللہ تعالیٰ کسی نوجوان عورت کی نماز دوپٹے کے بغیر قبول نہیں کرتا۔”
➌ مفہوم المخالفہ:
اس حدیث سے مفہوم المخالفہ (مخالف مفہوم) کے اصول کے تحت یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مرد کی نماز ننگے سر قبول ہو جاتی ہے۔
➍ فقہائے احناف کا مؤقف:
ان اور دیگر دلائل کی بنیاد پر حنفی فقہاء نے عاجزی و خشوع کی نیت سے ننگے سر نماز پڑھنے کو مردوں کے لیے جائز قرار دیا ہے۔
مراجع:
فتاویٰ عالمگیری، جلد 1، صفحہ 106
فتاویٰ شامی، جلد 1، صفحہ 474
دیوبندی و بریلوی مکاتب فکر کا موقف
صرف احناف ہی نہیں، دیوبندی اور بریلوی علما بھی ننگے سر نماز کے جواز کے قائل ہیں:
مراجع:
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، جلد 4، صفحہ 94
احکامِ شریعت از احمد رضا خان بریلوی، صفحہ 130
شہادت، جولائی 1999
خلاصہ
نبی ﷺ سے ننگے سر نماز پڑھنے کی کوئی صریح حدیث تو ثابت نہیں، لیکن احرام کی حالت اور بعض احادیث کی فقہی تعبیرات کی روشنی میں ننگے سر نماز کا جواز مردوں کے لیے موجود ہے۔ مختلف فقہی مکاتب فکر بھی اس رائے کے قائل ہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب