ننگے سر نماز پڑھنے کا حکم: جواز، سنت یا بدعت؟
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج۱ ص۳۷۴

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرح متین کہ آج کل نمازی حضرات عموماً عمامہ، ٹوپی اور رومال اتار کر ایک جانب رکھ دیتے ہیں اور ننگے سر نماز پڑھتے ہیں اور اس عادت کو سنت سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہاں تک درست ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز میں ستر مغلظ (شرمگاہ) کو ڈھانپنا بالاتفاق فرض ہے۔ اگر ان میں سے کوئی حصہ برہنہ رہ جائے تو نماز نہیں ہوگی، کیونکہ ان اعضا کو کھلا رکھنا شرعاً حرام ہے۔ حضرت بہز بن حکیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

قال رسول اللہﷺ: إِحْفَظ عَورتَکَ إِلا مِن زَوجَتِک أو ما مَلَکتْ یَمِیْنُکَ۔
(فتاویٰ اھل حدیث: ص۷۶ ج۲)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا کسی کو اپنی شرمگاہ دکھانے کا موقع نہ دو۔‘‘

ستر کے متعلق ائمہ کی وضاحت

امام محمد بن الشوکانی لکھتے ہیں:

وَالْحَقُّ۔ وُجُوْبُ سَتْرِ الْعَورة فِی جَمیع الأوقات إِلا قَضَاءِ الْحَاجة وإفضَاء الرجل إلی أھله۔
(نیل الاوطار: ج۲ ص۶۸)

’’حق یہ ہے کہ قضائے حاجت اور بیوی سے ملاپ کے وقت کے علاوہ ہر حال میں شرمگاہ کو ڈھانپنا فرض ہے۔‘‘

اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ امام احمد اور امام مالک کے نزدیک:

العورة القبل والدبر۔
(نیل الاوطار: ج۲ ص۷۰)

یعنی اعضائے ستر صرف قبل اور دبر ہیں۔

لہٰذا اگر یہ حصے ننگے رہیں تو نماز قطعاً باطل ہے، اور عام حالات میں بھی انہیں کھلا رکھنا ناجائز ہے۔

ننگے سر نماز کا حکم

چونکہ سر بالاتفاق اعضائے ستر میں شامل نہیں، اس لیے اگر کوئی شخص ننگے سر نماز پڑھ لے تو وہ جائز ہے۔ جیسے کسی کی پنڈلی، پیٹ یا پشت برہنہ ہو تو بھی نماز درست ہے، اسی طرح ننگے سر بھی نماز بلا شبہ صحیح ہے۔

البتہ کچھ لوگ اسے سنت قرار دیتے ہیں اور اس بارے میں درج ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں:

ایک کپڑے میں نماز کی احادیث

حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ قَدْ خَالَفَ بَيْنَ طَرَفَيْهِ۔
(صحیح البخاری: ج۱ ص۵۲)

’’نبی کریمﷺ نے ایک کپڑے میں اس طرح نماز پڑھی کہ چادر کا ایک کنارہ دائیں کندھے پر اور دوسرا بائیں کندھے پر رکھا۔‘‘

اسی طرح اس مضمون کی احادیث حضرت جابر، سلمہ بن اکوع، انس، عمرو بن اسید، ابو سعید خدری، کیسان، ابن عباس، عائشہ، ام ہانی، عمار بن یاسر، طلق بن علی، ابو ہریرہ اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں۔ یہ روایات صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، ترمذی، مسند احمد، نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں موجود ہیں۔
(تحفة الاحوذی شرح ترمذی: ج۱ ص۲۷۷، نیل الاوطار: ج۲)

اس استدلال کی وضاحت

کچھ اہل علم نے ان احادیث سے یہ سمجھا کہ چونکہ ایک کپڑے میں نماز ہوتی تھی، اس لیے سر ننگا رہتا تھا۔ لیکن یہ موقف درست نہیں:

➊ اگر ایک کپڑا اچھی طرح لپیٹ لیا جائے تو سر ڈھانپنا ممکن ہے۔
➋ یہ صورت دراصل کپڑوں کی کمی اور تنگدستی کے زمانے سے متعلق تھی۔

صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

((أولکلکم ثوبان؟))
(بخاری: ج۱ ص۵۲)
’’کیا تم سب کے پاس دو کپڑے ہیں؟‘‘

اسی طرح حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:

((أوکلکم یجد ثوبین؟))
(عون المعبود شرح ابی داؤد: ج۱ ص۲۴)
’’کیا تم سب دو کپڑوں کی وسعت رکھتے ہو؟‘‘

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

لقد رأیت الرجال عاقدی أزرھم فی أعناقھم من ضیق الازر خلف رسول اللہﷺ فی الصلاة کأمثال الصیان۔
(عون المعبود: ج۱ ص۲۴۱)
’’میں نے صحابہ کرام کو دیکھا کہ کپڑوں کی کمی کے باعث اپنی چادریں گردن میں باندھ کر رسول اللہﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھتے تھے۔‘‘

یہ سب روایات اس بات کی دلیل ہیں کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنا اس وقت کی مجبوری تھی۔

علماء کی تصریح

علامہ عبیداللہ محدث مبارکپوریؒ فرماتے ہیں:

وأما صلوة النبیﷺ وأصحابه فی ثوب واحد ففی وقت کان بعدم ثوب اخر وفی وقت کان مع وجودہ لبیان الجواز۔
(مرعاة المفاتیح شرح مشکوة المصابیح: ج۱ ص۵۰۵)

’’نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام کا ایک کپڑے میں نماز پڑھنا کبھی دوسرے کپڑے کے نہ ہونے کی وجہ سے تھا اور کبھی دوسرے کپڑے کے موجود ہونے کے باوجود جواز دکھانے کے لیے۔‘‘

نتیجہ

ان تمام احادیث سے ننگے سر نماز پڑھنے کا جواز یا اجازت تو ملتا ہے، لیکن اس کو سنت، مستحب یا معمول ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے