ننگے سر نماز اور نماز میں لباس کے احکام صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس مکتبہ دارالاندلس کی جانب سے شائع کردہ کتاب صحیح نماز نبویﷺ سے ماخوذ ہے جو الشیخ عبدالرحمٰن عزیز کی تالیف ہے۔

لباس کا بیان:

لباس انسان کی خصوصیت اور امتیاز ہے۔
❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا، جو تمھاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقویٰ کا لباس ہی بہتر ہے۔“
(سورۃ الأعراف: 26)
❀ اسلام چونکہ تمام دنیا کا دین ہے اور اس کو ماننے والے مختلف علاقوں کے لوگ ہیں، اس لیے اسلام نے مسلمان کو کوئی خاص لباس نہیں دیا، تاکہ کہیں مسلمانوں کے لیے کوئی مشکل نہ ہو، بلکہ کچھ شروط بیان کر دی ہیں۔ جس لباس میں وہ شروط پوری ہوں گی وہ اسلامی لباس کہلائے گا۔ لہذا مسلمانوں کو لباس میں ان شروط کا خیال رکھنا چاہیے۔

اسلامی لباس کی شرائط:

❀ اسلامی لباس کی مندرجہ ذیل شرائط ہیں:
➊ کپڑا اتنا موٹا ہو کہ اس سے جسم نظر نہ آئے۔
➋ اتنا تنگ سلا ہوا نہ ہو کہ اعضا کی بناوٹ ظاہر ہوتی ہو۔
[مسلم، کتاب اللباس، باب النساء الكاسيات العاريات المائلات المميلات: 2128]
➌ کفار کے لباس کے مشابہ نہ ہو۔
[مسلم، کتاب اللباس، باب النهي عن لبس الرجل الثوب المعصفر: 2077]
➍ ایسا لباس نہ ہو جو (بری) شہرت کا باعث بن جائے۔
[ابو داود، كتاب اللباس، باب في لبس الشهرة: 4029 – ابن ماجه: 3607 – حسن]
➎ یہ اسلامی لباس کی عمومی شرائط تھیں، اب ہم وہ شرائط پیش کرتے ہیں جو مرد یا عورت کے لیے خاص ہیں۔

مرد کا لباس:

❀ مرد کا لباس ریشم کا نہ ہو، ہاں کپڑے کی سلائی یا کڑھائی ریشم کی ہے تو جائز ہے۔
[بخاری، کتاب اللباس، باب لبس الحرير للرجال وقدر ما يجوز منه: 5828 – مسلم: 2069/15]
❀ زعفرانی (زرد) رنگ نہ ہو۔
[بخاری، کتاب اللباس، باب النهي عن التزعفر للرجال: 5846 – مسلم: 2077]
❀ نصف پنڈلی سے نیچے اور ٹخنوں سے اوپر تک ہو۔
[بخاری، كتاب اللباس، باب ما أسفل من الكعبين فهو في النار: 5787 – مسلم: 2086]
❀ مرد کا لباس عورت کے لباس سے مشابہ نہ ہو۔
[بخاری، کتاب اللباس، باب المتشبهين والمتشبهات بالرجال: 5885]

عورت کا لباس:

❀ عورت کا لباس مرد کے لباس سے مشابہ نہ ہو۔
[بخاری، کتاب اللباس، باب المتشبهين والمتشبهات بالرجال: 5885]
❀ پورے جسم کو چھپانے والا ہو۔
[مسلم، کتاب اللباس، باب النساء الكاسيات العاريات المائلات المميلات: 2128]
❀ عورت گھر سے باہر نکلے تو سر سے پاؤں تک چھپی ہوئی ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المرأة عورة
”عورت پوری کی پوری عورہ (یعنی چھپانے کے لائق) ہے۔“
[ترمذی، کتاب الرضاع، باب استشراف الشيطان المرأة إذا خرجت: 1173 – صحیح]
❀ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
فكيف يصنع النساء بذيولهن؟ قال: يرخين شبرا، فقالت: إذا تنكشف أقدامهن؟ قال: فيرخينه ذراعا
”عورتیں اپنی اوڑھنی کتنی نیچے لٹکائیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک بالشت لٹکا لیں۔“ انھوں نے عرض کیا: ”تب ان کے پاؤں ننگے ہوں گے؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر وہ ایک ہاتھ تک نیچے لٹکا لیں۔“
[ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء في جر ذيول النساء: 1731 – صحیح]
❀ عورت کا لباس اتنا خوبصورت نہ ہو کہ وہ غیر محرم کی توجہ کا مرکز بن جائے۔
(سورۃ النور: 31)
❀ عورت جسم یا لباس پر ایسی خوشبو نہ لگائے جس کی مہک مردوں تک پہنچے۔
[نسائی، كتاب الزينة، باب ما يكره للنساء من الطيب: 5129 – حسن]
❀ عورت کی کسی بھی چیز سے زینت کا اظہار نہ ہو۔
(سورۃ النور: 31)
❀ عورت کی زینت کی دو اقسام ہیں: ظاہری زینت اور باطنی زینت۔ ظاہری زینت میں عورت کی آنکھیں، ہاتھ، پاؤں اور کپڑوں کی خوبصورتی آتی ہے۔ ان میں سے کوئی چیز غیر محرم کے سامنے ظاہر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن ان کے سامنے بھی ظاہر نہ ہو تو اچھا ہے۔ باطنی زینت میں سر، چہرہ، گردن، بازو، پنڈلیاں اور خوشبو وغیرہ آتی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی چیز خاوند اور محرم کے علاوہ کسی کے سامنے ہرگز ظاہر نہیں ہونی چاہیے۔

نمازی کا لباس

❀ لباس نماز کے لیے شرط ہے، نماز ادا کرتے ہوئے مرد و عورت کو اس کا خیال رکھنا ضروری ہے، ورنہ نماز نہیں ہو گی۔
❀ نمازی کو نماز کے دوران میں لباس کے اوپر والے اصولوں کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل اصولوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے:
➊ اپنی استطاعت کے مطابق لباس صاف ستھرا اور اچھا ہو۔
ارشاد رب العالمین ہے:
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ
(سورۃ الأعراف: 31)
”اے آدم کی اولاد! ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو (یعنی پورا لباس پہنو)۔“
لہذا نماز کے لیے اچھا اور مکمل لباس پہن کر آنا چاہیے، پھٹا پرانا، میلا کچیلا یا سونے والا لباس پہن کر آنا غیر مناسب ہے۔
نافع (تابعی) رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ایسے کپڑے میں نماز پڑھی جسے میں چارہ کاٹنے کے لیے استعمال کرتا تھا تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کیا میں نے تمھیں کپڑے خرید کر نہیں دیے؟ اگر میں تمھیں اسی حالت میں کہیں (بازار وغیرہ کی طرف) بھیجوں تو تو چلا جائے گا؟ نافع کہتے ہیں کہ میں نے کہا: نہیں! پھر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کے لیے زینت اختیار کی جائے۔“
[السنن الكبرى للبيهقي: 236/2، ح: 3273 – إسناده صحیح]
➋ لباس اتنا خوبصورت نہ ہو کہ نماز میں اس کی طرف خیال رہے، بلکہ سادہ ہونا چاہیے۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خوبصورت کپڑے میں نماز پڑھی، فارغ ہوئے تو اسے اتارتے ہوئے فرمایا:
اذهبوا بحميصتي هذه إلى أبى جهم وائتوني بألبحانية أبى جهم، فإنها ألهتني آنفا عن صلاتي
”میری یہ خوبصورت چادر ابو جہم کے پاس لے جاؤ اور اس سے انجانیہ والی (سادہ) چادر لے آؤ، اس نے تو مجھے نماز سے غافل کر دیا تھا۔“
[بخاری، كتاب الصلاة، باب إذا صلي في ثوب له أعلام: 373 – مسلم: 556]
اسی طرح مصلی بھی سادہ ہونا چاہیے اور سامنے بھی کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جس کی طرف نماز میں خیال جانے کا خدشہ ہو۔
[بخاری، کتاب الصلاة، باب إن صلى في ثوب مصلب أو تصاوير: 374]
➌ کپڑا سمیٹا ہوا نہ ہو یعنی کف یا شلوار وغیرہ کے پانچے اور کمر موڑے ہوئے نہ ہوں۔
❀ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
أمرت أن أسجد على سبعة، لا أكف شعرا ولا ثوبا
”مجھے سات اعضا پر اس طرح سجدہ کرنے کا حکم ہوا ہے کہ نہ میں بال باندھوں اور نہ کپڑے سمیٹوں۔“
[بخاری، كتاب الأذان، باب لا يكف ثوبه في الصلاة: 816 – مسلم: 490]
بعض لوگ وضو کر کے آتے ہیں تو ان کے کف اوپر چڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ اسی حالت میں نماز شروع کر دیتے ہیں، یہ درست نہیں۔
➍ صرف ایک لمبا قمیص پہنا ہو تو نماز پڑھتے ہوئے گریبان بند کر لینا چاہیے، تاکہ رکوع وغیرہ کرتے ہوئے شرمگاہ پر نظر نہ پڑے۔
[ابو داود، كتاب الصلاة، باب الرجل يصلي في قميص واحد: 632 – نسائی: 766 – حسن]
➎ کپڑا کم ہو تو صرف ناف بند باندھ کر ستر ڈھانک لے۔
[بخاری، کتاب الصلاة، باب إذا كان الثوب ضيقا: 361]
❀ اب ہم ان باتوں کا ذکر کریں گے جو نماز میں لباس کے حوالے سے مرد یا عورت کے ساتھ خاص ہیں۔ لہذا اوپر والے احکام کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل باتوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔

نماز کے لیے مرد کا لباس:

❀ مرد کے لیے نماز میں ستر کا ڈھانپنا ضروری ہے، مرد کے ستر کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما بين السرة والركبة عورة
”ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ستر ہے۔“
[إرواء الغليل: 271 – حسن – مسند أحمد: 187/2، ح: 6756]
❀ اس کے علاوہ مرد کے لیے کندھے پر کپڑا رکھنا ضروری ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يصلي أحدكم فى الثوب الواحد ليس على عاتقيه شيء
”کوئی مرد اس حالت میں ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھوں پر کپڑا نہ ہو۔“
[بخاری، كتاب الصلاة، باب إذا صلى في الثوب الواحد فليجعل على عاتقيه: 359 – مسلم: 516]
مرد کے لیے نماز میں اور نماز کے علاوہ کسی حالت میں بھی اپنا تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکانا حرام ہے۔
[بخاری، کتاب اللباس، باب ما أسفل من الكعبين فهو في النار: 5787 – مسلم: 2087]
❀ چہرہ ننگا ہو۔
[مصنف ابن أبي شيبة: 242/2 – إسناده صحیح]
❀ نماز میں سدل جائز نہیں۔ سدل یہ ہے کہ کوئی کپڑا سر یا کندھوں پر اس طرح ڈالا جائے کہ اس کے دونوں کنارے چہرے کے سامنے لٹک رہے ہوں۔ سدل سے متعلق ابو داؤد کی مرفوع حدیث اگر چہ الحسن بن ذکوان کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن سیدنا علی اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ دونوں بزرگ اس عمل کو ناپسند کرتے تھے اور اسے یہود کی علامت قرار دیتے تھے۔
[مصنف ابن أبي شيبة: 160، 161/2 – إسناده صحیح]

ننگے سر نماز پڑھنے کا مسئلہ:

سر نہ تو اعضائے ستر میں شامل ہے اور نہ کوئی ایسی صحیح و قابل عمل حدیث ہے کہ اس میں سر ڈھانپنا ضروری قرار دیا گیا ہو، بلکہ کوئی ایسی حدیث بھی نہیں جس میں سر ڈھانپ کر نماز پڑھنے کو ننگے سر نماز پڑھنے سے افضل قرار دیا گیا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دونوں طرح نماز پڑھنا ثابت ہے، لہذا ننگے سر نماز پڑھنا جائز ہے۔

علمائے احناف کے فتاوی:

➊ ننگے سر نماز پڑھنے سے متعلق بریلوی مکتب فکر کے بانی مولوی احمد رضا خان لکھتے ہیں: ”اگر بانیت عاجزی ننگے سر (نماز) پڑھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔“
[احکام شریعت: 54/1]
➋ پانچ سو (500) حنفی علماء کی مرتب کردہ کتاب ”فتاوی عالمگیری“ میں لکھا ہے: ”ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے جب کہ اس کے پاس عمامہ بھی موجود ہو اور اس نے سستی کرتے ہوئے اور عمامہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے ننگے سر نماز پڑھی ہو اور اگر وہ خشوع و خضوع کے لیے ننگے سر نماز پڑھے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ یہ زیادہ بہتر ہے۔“

علامہ ناصر الدین الألبانی کا اظہار تعجب:

❀ دستار و عمامہ یا ٹوپی و پگڑی پر اتنی شدت کے ساتھ عمل کرنے والے لوگوں کی ایک بات انتہائی قابل تعجب ہے کہ وہ داڑھی مونڈنے یا منڈوانے کا گناہ تو مسلسل کرتے چلے جاتے ہیں اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو انھیں اپنے اس گناہ کے ارتکاب کا شعور تک نہیں ہوتا اور نہ وہ اس سے اپنی نماز میں کوئی کمی محسوس کرتے ہیں، لیکن ٹوپی یا پگڑی کے معاملہ میں سستی ہرگز نہیں کرتے، اس طرح ان لوگوں نے شریعت کے احکام کو الٹ کر رکھ دیا ہے کہ جو چیز اللہ کی طرف سے حرام تھی اسے جائز کر لیا اور جو محض جائز تھی اسے واجب یا قریب واجب کر لیا ہے۔
[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة، ح: 129]

نماز کے لیے عورت کا لباس:

❀ دوپٹے کے بغیر عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يقبل الله صلاة حائض إلا بخمار
”اللہ تعالیٰ دوپٹے کے بغیر بالغہ عورت کی نماز قبول نہیں کرتا۔“
[ابو داود، كتاب الصلاة، باب المرأة تصلي بغير خمار: 641 – ترمذی: 377 – ابن ماجه: 655 – صحیح]
❀ سو عورت کو نماز میں پورا جسم ڈھانپنا چاہیے، سوائے چہرہ اور ہاتھ کے۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی شخص کو دیکھتے کہ اس نے نماز میں اپنا منہ ڈھانپ رکھا ہے تو وہ زور سے کپڑا کھینچ کر اس کا منہ ننگا کر دیتے تھے۔
[مصنف ابن أبي شيبة: 242/2 – إسناده صحیح]
اسی طرح تابعین میں سے مسلم بن بدیل، ابراہیم نخعی، امام شعبی اور محمد بن سیرین رحمہم اللہ وغیرہ بھی نماز میں منہ ڈھانپنا ناپسند کرتے تھے۔
[مصنف ابن أبي شيبة: 242/2 – بالأسانيد الحسنة والصحيحة]
❀ اگر غیر محرم مرد پاس ہیں تو چہرہ اور ہاتھ چھپانے بھی لازمی ہیں۔
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم حالت احرام میں اپنے چہروں کو (غیر محرم مردوں سے) چھپاتی تھیں۔
[ابن خزيمة: 2485 – إسناده صحیح – مستدرك حاكم: 454/1، ح: 1668 – إسناده صحیح]
❀ عورتوں کو عام حالت میں اور بالخصوص نماز میں اپنے بال سر پر باندھنے سے منع کیا گیا ہے۔
[بخاری، کتاب الأذان، باب لا يكف شعرا: 815 – مسلم: 1095]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے