سوال
نماز کے فرائض و ارکان سے کیا مراد ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز کے فرائض اور ارکان سے مراد وہ اعمال اور مخصوص ہیئتیں ہیں جن کے مجموعہ سے نماز اپنی مکمل شکل اختیار کرتی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی عمل یا ہیئت ترک کر دی جائے، تو نماز شرعی طور پر معتبر نہیں رہتی۔ یہ ارکان درج ذیل ہیں:
➊ نیت
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ …٥﴾
…البينة
"انہیں اس کے سوا کوئی اور حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں، اسی کے لیے دین کو خالص رکھیں۔”
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ)
(صحیح البخاری: باب کیف کان بدء الوحی ج۱ص۲)
"اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔”
یعنی اعمال کی قبولیت یا عدم قبولیت نیت پر منحصر ہے۔ نیت کا مطلب دل کا ارادہ اور عزم ہوتا ہے، زبان سے نیت کرنا سنت سے ثابت نہیں۔ اس لیے زبان سے نیت کے الفاظ کہنا بدعت شمار ہوتا ہے۔
➋ تکبیر تحریمہ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ، وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ، وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ”
(رواہ الشافعی، احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ، الترمذی، وقال: ھذا أصح شیء فی ھذا الباب)
یعنی نماز کی چابی طہارت، اس کا آغاز "اللہ اکبر” سے اور اختتام سلام سے ہے۔ یہاں "اللہ اکبر” کے علاوہ کوئی اور کلمہ ثابت نہیں ہے، جیسے "اللہ الکبیر” یا "اللہ الأعظم” وغیرہ۔
➌ قیام
فرض نماز میں قیام رکن ہے۔ اس کی دلیل قرآن اور سنت سے صریح طور پر ثابت ہے۔ مثلاً:
﴿وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ﴾
…البقرة: ٢٣٨
"اور اللہ کے سامنے ادب سے کھڑے رہا کرو۔”
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"کانت بی بواسیر فسألت النبی ﷺ عن الصلوة، فقال: صل قائماً، فإن لم تستطع فقاعداً…”
کہ مجھے بواسیر کا عارضہ لاحق تھا، میں نے نماز کے متعلق رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کیسے پڑھوں؟ تو آپ نے فرمایا: کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ اگر کھڑے نہ ہو سکو تو بیٹھ کر پڑھ لیا کرو، اگر بیٹھ نہ سکو تو کروٹ کے بل پڑھ لو۔
(صحیح البخاری: باب اذا لم یطق قاعداً صلی علی جنب جلد ۱، ص۱۵)
یعنی اگر کھڑے ہونے کی استطاعت ہو تو کھڑے ہو کر نماز پڑھنا لازم ہے، ورنہ بیٹھ کر اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کروٹ پر۔
➍ قراءتِ فاتحہ
نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا امام، مقتدی اور منفرد سب پر فرض اور رکن ہے، چاہے نماز سری ہو یا جہری۔ جیسا کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
"لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ”
کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس آدمی کی نماز نہیں ہوتی جو سورۂ فاتحہ نہیں پڑھتا۔
(الجامع الصحیح، جلد۱، ص۱۰۴)
یعنی جو شخص سورۃ الفاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ اس مضمون کی کئی صحیح احادیث موجود ہیں جو سورۃ الفاتحہ کے رکن ہونے پر واضح دلالت کرتی ہیں۔
➎ رکوع
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا﴾
…الحج: ٧٧
"اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرتے رہو۔”
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"ثَمَّ ارْکَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ رَاکِعاً”
’’پھر اطمینان کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘
(سنن أبی داؤد، ج۱، ص۱۳۱، عون المعبود، ج۱، ص۳۲۱)
یعنی مکمل اطمینان سے رکوع کرو۔ لہٰذا رکوع نماز کا لازمی اور فرضی رکن ہے۔
➏ رکوع کے بعد قیام
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"وَکَانَ إِذَا رَفَعَ رَاسَهُ مِنَ الرُّکُوعِ لَمْ یَسْجُدْ حَتَّی یَسْتَوِیَ قَائِماً”
’’جب آپ رکوع سے سر اٹھاتے تو جب تک آپ پوری طرح کھڑے نہ ہو جاتے سجدہ نہ کرتے۔‘‘
(صحیح مسلم، ج۱، ص۱۹۴)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"کَانَ إِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّکُوْعِ إِنْتَصَبَ قَائِماً”
’’آپ رکوع کے بعد اچھی طرح سیدھے کھڑے ہوتے۔‘‘
(صحیح مسلم، ج۱، ص۱۸۹)
ابو حمید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"رَفَعَ النَّبِيُّ ﷺ وَاسْتَوٰی حتّٰی یَعُودَ کُلُّ فَقَارٍ مَکَانَهُ”
’’کہ رسول اللہﷺ رکوع سے اٹھتے تو اس طرح سیدھے ہو کر کھڑے ہوتے کہ کمر کی تمام ہڈیاں اپنی اپنی جگہ لوٹ کر ٹھہر جاتیں۔‘
(الجامع الصحیح، ج۱، ص۱۱۰)
یعنی رکوع سے اٹھنے کے بعد سیدھا کھڑا ہونا بھی نماز کا رکن ہے۔
➐ سجدہ
سجدے کی رکنیت کے لیے وہی قرآنی آیت کافی ہے جو رکوع کے لیے بیان ہوئی۔ رفاعہ بن رافع کی حدیث میں فرمایا گیا:
"ثُمَّ اسجُدْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ سَاجِداً”
’پھر پورے اطمینان کے ساتھ سجدہ کر۔‘‘
(سنن أبی داؤد، ج۱، ص۱۳۱)
ہر رکعت میں دو سجدے کرنا فرض ہے اور ان میں اطمینان بھی شرط ہے۔ سجدے کے اعضاء سات ہیں:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
"أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ: عَلَى الجَبْهَةِ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ عَلَى أَنْفِهِ، وَاليَدَيْنِ، وَالرُّكْبَتَيْنِ، وَأَطْرَافِ القَدَمَيْنِ”
’’ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا مجھے سات پنڈلیوں پر سجدہ کرنے کا حکم ملا ہے وہ یہ ہیں: پیشانی، ناک، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کی انگلیاں۔‘‘
(الجامع الصحیح، ج۱، ص۱۱۲؛ الدار قطنی مع المغنی، ج۱، ص۳۴۸)
یعنی پیشانی (ناک سمیت)، دونوں ہاتھ، گھٹنے، اور پاؤں کی انگلیاں – ان سب پر سجدہ کرنا لازم ہے۔
⑧ آخری قعدہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس رکن کی فرضیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"كُنَّا نَقُولُ قَبْلَ أَنْ يُفْرَضَ التَّشَهُّدُ: السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ، السَّلَامُ عَلَى جِبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَقُولُوا ھذا، وَلَكِنْ قُولُوا: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ …”
(رواه الدارقطنی، وقال: إسناده صحيح۔ باب فی أن التشھد فی الصلوة فرض، ج۲، ص۲۸۲، أخرجه الدارقطنی، ج۱، ص۳۵۰، والبیهقی۔ وصححاه۔ نیل الأوطار، ج۲، ص۲۸۰)
یہ حدیث آخری قعدہ میں تشہد کی فرضیت کی دلیل ہے۔ نماز کی آخری رکعت میں دو سجدوں کے بعد بیٹھ کر تشہد پڑھنا فرض اور نماز کا لازمی حصہ ہے۔
علامہ سید محمد سابق مصریؒ فرماتے ہیں:
"الثابت المعروف من هدي النبي ﷺ أنه كان يقعد القعود الأخير ويقرأ فيه التشهد، قال ابن قدامة: وهذا يدل على أنه فرض بعد إن لم يكن مفروضا”
(فقه السنة)
یعنی رسول اللہ ﷺ کا یہ مستقل معمول تھا کہ آپ آخری قعدہ میں بیٹھ کر تشہد پڑھتے تھے۔ ابن قدامہ کے مطابق یہ عمل اس کی فرضیت پر دلالت کرتا ہے، اگرچہ ابتدائی طور پر فرض نہ بھی تھا۔
⑨ سلام
نماز کے اختتام پر سلام بھی اس کے فرائض اور ارکان میں شامل ہے۔ اس کی دلیل سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو تکبیر تحریمہ کے بیان میں گزر چکی ہے:
"مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ، وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ، وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ”
’’نماز کی چابی وضو، اس کا آغاز اللہ اکبر اور فراغت کا واحد ذریعہ دو طرفہ سلام ہے۔‘‘
(رواء احمد، الشافعی، ابو داؤد، ابن ماجہ، الترمذی، وقال: ھذا أصح شيء فی الباب وأحسن)
یعنی نماز کی چابی وضو ہے، اس کا آغاز تکبیر (اللہ اکبر) سے اور اختتام سلام سے ہوتا ہے۔
مزید دلائل:
حضرت عامر بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:
"كنت أرى النبي ﷺ يسلم عن يمينه وعن يساره حتى يُرى بياض خدَّه”
(رواه أحمد، مسلم، النسائی، ابن ماجه)
یعنی رسول اللہ ﷺ دائیں اور بائیں طرف چہرہ پھیر کر سلام کرتے حتیٰ کہ آپ کے رخسار کی سفیدی نظر آتی۔
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"صليتُ مع رسول الله ﷺ، فكان يسلم عن يمينه: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته”
’’کہ میں نے رسول اللہﷺ کی اقتدا میں نماز اداکی۔ پھر آپ نے دائیں جانب چہرہ پھیرکی السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاته کے الفاظ فرمائے۔‘‘(رواه أبو داؤد بإسنادٍ صحيح، بلوغ المرام، فقه السنة، ج۱، ص۱۱۹)
یعنی آپ ﷺ نے دائیں طرف "السلام علیکم ورحمة الله وبركاته” کے الفاظ کہے۔
نتیجہ:
یہ تمام ارکانِ صلوٰۃ اور فرائض وہ ہیں جو کہ قرآنِ کریم، احادیثِ صحیحہ، حسنہ، مرفوعہ، متصلہ، غیر معللہ اور غیر شاذہ سے ثابت اور محقق ہیں۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی مدد سے وہ تمام ارکان ذکر کیے ہیں جو نماز کی صحیح ہیئت میں شامل ہیں اور جو رسول اللہ ﷺ سے منقول نماز کی صفت کا جزو و حصہ ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی شخص ان دلائل کو مد نظر رکھ کر حضرت مولانا عبدالغفور حفظہ اللہ کی نماز کا جائزہ لے تو خود فیصلہ کرے کہ ان کا موقف کس حد تک درست ہے۔
جہاں تک اس عاجز راقم کی رائے کا تعلق ہے تو میں پورے یقین اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ مولانا کی نماز کی ہیئت میں کچھ کمزوری پائی جاتی ہے۔
ایک اہم اصولی نکتہ:
یاد رکھیں! اصولاً جس شخص کی اپنی نماز صحیح ہو جائے، اس کی اقتدا کرنا بالاتفاق جائز ہے۔ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری کے دوران بیٹھ کر جو نماز ابو بکر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کے ساتھ پڑھائی تھی، وہ صحیح نہیں ہوئی؟ حالانکہ قیام، جو نماز کا سب سے اہم رکن ہے، اس وقت موجود نہ تھا۔
ھذا ما عندی، واللہ اعلم بالصواب